اشعار کی صحت

ہفتہ 1 جنوری 2022

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

”اشعار کی صحت“ کے کالمز پر بہت سے سینیَر کالم نگار بھی بہت پریشان ہیں، اللہ جانتا ہے کہ میرا مقصد کسی کی تضحیک و توہین ہرگز نہیں ہے بلکہ مَیں تو بڑے خلوص اور احترم کے ساتھ غلط اشعار کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔غلطی ہر کسی سے ہو سکتی ہے، مَیں بھی غلطی کر سکتا ہوں مگر میرا خاص مقصد اُن لوگوں کی اصلاح کرنا ہے جو ہر روز غلط سلط انداز میں اشعار لکھ کر اخبار مالکان سے لاکھوں روپے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

مجھے”اشعار کی صحت“ کے کالموں کی سخت سزا بھی بھگتنا پڑ رہی ہے، احباب کی مسلسل ناراضی بھی میرے لیے تکلیف دہ ہے مگر مَیں یہ بھی چاہتا ہوں کہ قارئین کو درست اشعار ہی پڑھنے کو ملنے چاہییں، اگرچہ مَیں بہت زیادہ زیرِ عتاب ہوں مگر یہ سلسلہ جاری رہے گا (ان شاء اللہ)۔

(جاری ہے)

اب چند غلط اشعار کا تذکرہ کرتے ہیں۔

جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
 وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
”آسان نسخے“ کے عنوان سے اس نظم میں چند حکیمی نسخے بیان کیے گئے ہیں اس لیے سوشل میڈیا پر مسلسل اس نظم کو حکیم محمد سعید سے منسوب کیا جاتا ہے، جب کہ حکیم محمد سعید کا اس نظم سے کوئی تعلق نہیں، یہ نظم معروف شاعر اسد ملتانی کی ہے اور”کلیاتِ اسد ملتانی“ میں موجود ہے۔


محترم مجیب الرّحمان شامی نے 5 دسمبر کے اپنے کالم میں اِس مصرعے میں کچھ سقم پیدا کر دیا ہے۔
 یہ ہوتا تو کیا ہوتا، یہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
یہ مصرع چراغ حَسن حسرت کاشمیری کا ہے، اُن کی شخصیت پر ایم ظہیر نے”حسرت کاشمیری“ کے نام سے کتاب لکھی ہے، اس کتاب میں یہ مکمّل شعر موجود ہے۔
 ناکام تمنّا دل اِس سوچ میں رہتا ہے
 یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟
ہمارے اکثر کالم نگاروں کو کالم لکھنے کی بڑی جلدی ہوتی ہے اور اسی عجلت میں اشعار کو اِس طرح توڑ مروڑ دیتے ہیں کہ بڑا دکھ ہوتا ہے۔

آپ 6 دسمبر کا کالم”قلم دشمنی“ پڑھ لیجیے! ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے میر تقی میر کے شعر کا ناس مار کر رکھ دیا ہے۔
 شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
اب آپ میر تقی میر کا کہا گیا شعر بھی پڑھ لیں تا کہ آپ کو اندازہ ہو اشفاق احمد ورک نے شعر میں کتنی تحریف کر دی ہے۔
شام سے کچھ بُجھا سا رہتا ہے
 دل ہُوا ہے چراغ مفلس کا
”انتخاب میر از محمد حَسن“ میں”رہتا ہے“ کی بجائے”رہتا ہوں“ بھی لکھا گیا ہے مگر”کلیاتِ میر“ کے قدیم ترین نسخوں اور ناصر کاظمی کی کتاب”انتخابِ میر“ میں پہلا مصرع”رہتا ہے“ کے ساتھ ہی موجود ہے۔


9 دسمبر کے روزنامہ”جہانِ پاکستان“ میں سیّد درویش شہزاد کا کالم”اقراء“ نظروں سے گزرا، کالم میں حضرت علامہ محمد اقبال کا ایک مصرع بحر سے نکال دیا گیا ہے۔
 تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات
پہلے مصرعے میں لفظ”ہیں“ اضافی ہے، اس کا مصرعے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، حضرت علامہ محمد اقبال کی کتاب”ضربِ کلیم“ میں مکمّل شعر اس طرح پڑھا جا سکتا ہے۔


 تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
 مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
روزنامہ ایکسپریس کی 9 دسمبر کی اشاعت میں حضرت علامہ محمد اقبال کے ایک شعر کا حلیہ کس طرح بگاڑ دیا گیا ہے، یہ آپ اشفاق اللہ جان ڈاگیوال کے کالم”تبدیلی“ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں، حیرت ہے کہ ادارتی صفحات کے مدیران بھی ذرا غور فرمانے کی زحمت نہیں کرتے اور افسوس ناک تساہل پسندی میں مبتلا ہیں، اشفاق اللہ جان ڈاگیوال لکھتے ہیں۔


وہ ایک سجدہ جیسے تُو گراں سمجھتا ہے
 ہزار سجدوں سے بندے کو دلاتا ہے نجات
اگرچہ اس شعر کی درستی پہلے کسی کالم میں کی جا چکی ہے مگر شعر اتنے عامیانہ انداز میں لکھ دیا گیا ہے کہ ایک بار پھر تصحیح کی ضرورت پیش آ گئی ہے، ضربِ کلیم“ میں موجود اس شعر کی اصلاح فرما لیجیے۔
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ایم ابراہیم خان 10 دسمبر کے کالم میں لکھتے ہیں”کسی نے خوب کہا ہے
یہ تیری روح، ترے جسم سے عبارت ہے“
ایم ابراہیم خان نے کسی تحقیق کے بغیر ہی مصرعے کی ترتیب خراب کر دی ہے۔

”کلیاتِ مجید امجد“ میں شعر اس طرح سے ہے۔
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم، تری روح سے عبارت ہے
روزنامہ جنگ کی 12 دسمبر کی اشاعت میں جناب حَسن نثار نے ساحر لدھیانوی کے ایک مصرعے میں معمولی سی تحریف کر دی ہے، ظاہر ہے جب شعر میں خفیف سی تبدیلی بھی کر دی جائے گی تو شعر کا لطف ضرور کِرکِرا ہو گا۔


جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر لدھیانوی نے”دیا تھا“ کی بجائے”دیا ہے“ استعمال کیا ہے، یقین نہ آئے تو ساحر لدھیانوی کی کتاب”تلخیاں“ اور”کلیاتِ ساحر“ کا مطالعہ کر لیجیے! ان دونوں کتابوں کے بالکل ابتدائی صفحات میں ہی یہ شعر موجود ہے۔
 دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لَوٹا رہا ہُوں مَیں
مرزا غالب کا ایک بڑا مشہور شعر ہے۔


مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
اب دیکھیں کہ شوکت علی شاہ نے 14 دسمبر کے کالم”حرمت حرف“ میں یہ شعر کس طرح بگاڑ کر رکھ دیا ہے!
معذور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ
لعیم - تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا ہے
شوکت علی شاہ کا کارنامہ دیکھیے کہ لفظ”مقدور“کو ”معذور“ اور”لئیم“ کو”لعیم“ بنا کر رکھ دیا ہے، اس قسم کی غلطیاں ہم کیسے برداشت کر جائیں، ہونا تو یہ چاہیے جن کالم نگاروں کے غلط اشعار کی تصحیح کی جاتی ہے، اُن کو شُکریہ ادا کرنا چاہیے، مگر دوست خفا ہو جاتے ہیں۔


روزنامہ ایکسپریس کی 17 دسمبر کی اشاعت میں شکیل فاروقی رقم طراز ہیں”جس کا اندازہ سردار عبدالعرب صاحب کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے
 بس اتنی سی بات پر رہبری چھینی گئی ہم سے
 کہ ہم سے قافلے منزل پہ لڑوائے نہیں جاتے“
شکیل فاروقی نے”عبدالعرب“ اور”قافلے لڑوانے“ کی بات لکھ کر شعر کو لطیفہ بنا کر رکھ دیا ہے، سردار عبدالرّب نشتر سے منسوب یہ شعر دراصل استاد قمر جلالوی کا ہے اور ان کی کتاب”اوجِ قمر“ میں موجود ہے۔


 بس اتنی بات پر چھینی گئی ہے رہ بری ہم سے
 کہ ہم سے کارواں منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے
18 دسمبر کے کالم کے آخر میں ڈاکٹر توصیف احمد خان لکھتے ہیں۔
لائیں کہاں سے ایسے پراگندہ طبع لوگ
اسی مصرعے کو کالم کا عنوان بھی بنا دیا گیا ہے، یہ مصرع کس شاعر کا ہے، اس کا تو مجھے کچھ علم نہیں! البتہ آپ میر تقی میر کا یہ شعر جو”دیوانِ میر“ اور”کلیاتِ میر“ میں موجود ہے، ضرور پڑھ لیجیے!
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
ایم ابراہیم خان نے 20 دسمبر کے کالم میں حضرت علامہ محمد اقبال کے شعر کا ایک مصرع تحریر کیا ہے مگر بغیر چھان پھٹک کے غلط ہی لکھ دیا ہے۔


آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
”بانگِ درا“ کی نظم”شمع اور شاعر“ میں حضرت علامہ محمد اقبال نے اس مصرعے میں لفظ”ہیں“ کی بجائے”گے“ استعمال کیا ہے۔
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گُل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
پروفیسر محمد اصغر چیمہ کا کالم”ناگزیر“ 25 دسمبر کو پڑھا تو حضرت علامہ محمد اقبال کا ایک مصرع غلط پایا۔
 ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم
جب کہ”ضربِ کلیم“ میں موجود نظم”مومن“ میں شعر اس طرح پڑھا جا سکتا ہے۔
ہو حلقہ ء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :