حسین کو ماننا اور حسین کی ماننا میں تضاد

جمعہ 28 اگست 2020

Humayun Shahid

ہمایوں شاہد

ہر سال محرم الحرام رنج و غم کی کیفیت کا اظہارِ کرتے ہوئے منایا جاتا ہے. ہر مکتبہ فکر غم حسین کو محسوس کرتا ہے اور اندر ہی اندر آبدیدہ بھی ہوتا ہے. گو کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسین سے محبت کرنے والی ہر آنکھ نم  ہوتی ہے اور ہر لب پکارتا ہے ہمارے ہیں حسین!
لیکن اہل تشیع حضرات اس مہینے زیادہ جذباتی نظر آتے ہیں. اس لئے  کہ ان کا غم حسین منانے کا طریقہ کار باقی مکتبہ فکر سے جدا ہے.

کیونکہ اہل تشیع حضرات غم حسین منانے کو عبادت سمجھتے ہیں. اس لئے یہ نظریہ ان کو عزاداری اور جلوس کی طرف راغب کرتا ہے . مختلف طریقوں سے عزاداری کرکے حسین سے اور اہل بیت اطہار سے محبت و غم کا والہانہ اظہار کیا جاتا ہے. اس دوران مجالس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے.

(جاری ہے)

نیز ان مجالس کے اندر کربلا کے دل دہلا دینے والے واقعات کی منظر کشی کی جاتی ہے.

لیکن اس سب میں اہل تشیع حضرات ان صحابہ کرام کو بھی کوستے ہیں جو حضرت امام حسین کی شہادت کے وقت موجود تھے. بلکہ صرف یہ ہی نہیں بعض زاکرین  تو خلافت راشدہ میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین کو بھی تعن و طنز کرتے نظر آتے ہیں. جو کہ درحقیقت قابل قبول نہیں، بلکہ یہ سب قابل مذمت ہے. کیونکہ اس طرح وہ باقی لوگوں کے دلوں میں بغض صحابہ کو جنم دیتے ہیں.

اس بات کے قطع نظر کہ حسین رضی اللہ عنہ خود کتنی صحابہ کرام کی عزت کرتے تھے خاص طور پر خلفائے راشدین کی! یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے قبل ان کے عقبی دروازے پر جنت کے دونوں شہزادے پہرا دے رہے تھے. یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں شہزادوں کو صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین کی عزت ورثے میں عنایت کی تھی.


لیکن بد قسمتی سے حسین کو ماننے والے اس بات کا خیال نہیں رکھتے. یہی وجہ ہے کہ ہر سال محرم الحرام میں کوئی ایسا بیان ضرور آتا ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین کی تذلیل کی جاتی ہے. جو کہ ہر مکتبہ فکر کے لئے دکھ اور گہرے غم و غصہ کا باعث بنتا ہے. لہٰذا اس سال بھی شیعہ زاکرین کی طرف سے یہی روایت جاری رکھتے ہوئے اسلام آباد کی ایک مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا گیا .

جس کے بعد سے موصوف ہر جگہ سے لعن طعن وصول کر رہے ہیں. جو کہ بنتی بھی ہے. ہر سال یہی واقعات پیش آتے ہیں. لیکن حکومت وقت ہر دفعہ اس کو فرقہ واریت کے ڈر سے نظر انداز کردیتی ہے. اس لئے ایسے معاملات حکومتی کمزوری کے باعث مزید طول پکڑ لیتے ہیں اور شیعہ سنی ٹسل بازی مزید پختہ ہوجاتی ہے.
بنیادی طور پر کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، وہ غم حسین کو محسوس کرتا ہے.

کیونکہ یہ ایسا غم ہے جو کہ ہمارے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے بہت عرصہ پہلے محسوس کرلیا تھا . یہی وجہ تھی کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم جنت کے دونوں شہزادوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کرتے تھے. کیونکہ وہ ایک  شہزادے کو زہر کی تکلیف میں مبتلا دیکھ رہے تھے اور دوسرے شہزادے کو کربلا کی مٹی میں نیزے پر چڑھ کر قرآن کی آیات پڑھتے دیکھ رہے تھے.

بس یہی مناظر آپ صل اللہ علیہ وسلم کو غمگین کردیتے تھے. لہذا غم حسین منانا تو رسول ﷲ صل اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.
لیکن میرا بنیادی سوال تو ان لوگوں سے ہے جو غم حسین مناتے ہوئے ہر حد کو پار کردیتے ہیں اور اس دوران وہ انبیاء کرام اور صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین کا لحاظ بھی بھول جاتے ہیں. سوال یہ ہے کہ کیا صرف حسین کو ماننا ہی کافی ہے یا حسین کی ماننا بھی اتنا ہی ضروری ہے؟ کیونکہ بد قسمتی سے جو لوگ اپنے آپ کو حسین کا سب سے بڑا نام لیوا سمجھتے ہیں.

وہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے طریقوں کے خلاف چلتے ہیں. اس لئے یہ بحث ضروری ہے کہ کیا صرف حسین کو ماننا کافی ہے؟ کیونکہ حسین کو تو سب مانتے ہیں بیشک وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں. لیکن اصل بات یہ ہے کہ حسین کی کون مانتا ہے؟ یہ کی اور کو کا لفظی تضاد ہی مقصد واضح کردیتا ہے. لہٰذا میرے نزدیک جو حسین کو ماننے کے ساتھ ساتھ حسین کی بھی مانے، اصل میں وہی نام لیوا حسین ہے.
کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ تو وہ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے یزید کی بیعت کا انکار کیا.

جو کہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ حسین کا ایمان سب سے بلند ترین تھا. کیونکہ سب سے پہلے انھوں نے ہاتھ اٹھا کر یزید کی بیعت کو مسترد کیا . جو کہ حدیث کی رو سے اعلیٰ ایمان کی علامت ہے. یہی جذبہ انھیں اہل بیت و اطہار کے ہمراہ کربلا کی مٹی کی جانب کھینچ لایا.
در اصل حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت یزید کی کامیابی نہیں ہے. بلکہ یہ تو حسین کی کامیابی ہے کہ انھوں نے جان دے کر بھی یزید کی بیعت نہ کی اور خلافت کا سرٹیفکیٹ یزید کو حاصل کرنے میں ناکام کردیا.


لیکن اگر ہم اپنے معاشرہ میں دیکھیں تو آج کا انسان محض چند کوڑی لے کر اپنا ایمان بیچ دیتا ہے. یہ تو معمولی بات ہے. آج کا مسلمان تو حق بات اس لئے رد کردیتا ہے کہ اس میں اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے. یعنی ایک طرف تو ہم حسین کے نام لیوا ہیں اور دوسری طرف کرتوت ہمارے بنو امیہ اور بنو عباس سے بھی بدتر ہیں. حسین رضی اللہ عنہ نے تو نیزوں اور تلواروں کی چھاؤں میں بھی نماز پڑھ کر  یہ پیغام پہنچایا کہ نماز کی پابندی ہر صورت ممکن بنائی جائے.
لیکن اگر آج ہم اپنی بات کریں تو مجھ سمیت کئی افراد بغیر کوئی وجہ یا عذر کے نماز چھوڑ دیتے ہیں.

اس لئے اس تضاد کو ختم کیا جائے اور حسین کو ماننے کے ساتھ ساتھ حسین کی بھی مانی جائے. کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کو ماننے اور حسین رضی اللہ عنہ کی ماننے میں واضح تضاد موجود ہے.لہذا اس تضاد کو ختم کرکے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بنیادی اصول اپنا کر ہی آج کا مسلمان حقیقت میں سچا اور پختہ نام لیوا حسین بن سکتا ہے. شاعر نے بھی بہترین انداز میں حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امت مسلمہ سے شکوہ کیا ہے کہ؛
سجا کے لخت جگر پیش کر رہے تھے حسین
!بقاء دین محمد کو اور کیا دیتے
بتول زادوں نے امت کو سرفراز کیا
اب اپنا فرض بھی اے کاش! ہم نبھا دیتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :