مسلم حکمرانی کا عروج و زوال - قسط نمبر2

ہفتہ 19 ستمبر 2020

Humayun Shahid

ہمایوں شاہد

مسلم حکمرانی کے عروج و زوال کی یہ کہانی ابھی عہد امیہ تک پہنچی تھی اور اس عہد کا خاتمہ ایک دوسری ملوکیت کا آغاز کر رہا تھا. لیکن اب بھی مسلم حکمرانی ہی قائم تھی بس ملوکیت بدلی تھی. اب جو ملوکیت تخت نشین ہوئی تھی اس کو ہم ملوکیت بنو عباس کے نام سے جانتے ہیں. ملوکیت بنو عباس کی اگر ہم بنیاد کی طرف دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بنو ہاشم کے چاہنے والے جو کہ اب تک بنو امیہ کے ظلم و ستم کو برداشت کر رہے تھے وہ اب یہ محسوس کر رہے تھے کہ خلافت تو اہل بیت کا حق تھا.

لیکن یہ ایک دوسرا گروہ آکر ہم پر حکومت کر رہا ہے. اس لئے بنو ہاشم کے چاہنے والوں نے ملوکیت بنو امیہ کے خاتمے کا اور ظلم اہل بیت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی.

(جاری ہے)

بس پھر عمر بن عبدالعزیز رح کی رحلت کے بعد اس تحریک نے مضبوطی پکڑ لی. بنو ہاشم کے چاہنے والوں نے اس تحریک کی قیادت خاندان رسول صل اللہ علیہ وسلم امام زین العابدین جگر گوشہ حسین رضی اللہ عنہ کو کرنے کی پیشکش کی لیکن امام زین العابدین نے اس کی قیادت کرنے سے معذرت کردی.

اس کی وجوہات یہ بھی ہو سکتی ہیں کہ انھوں نے اپنے خاندان کو خون میں لت پت دیکھا تھا. اس لئے وہ مزید ایسے حالات کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے. اس لئے انھوں نے اس تحریک کی قیادت کو رد کیا تھا اور دین اسلام کی تعلیمات و تبلیغ کو ہی ہمیشہ کے لئے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا.
لہٰذا اہل بیت یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آل اولاد نے اس تحریک کی قیادت کو رد کردیا تھا.

اب کسی نہ کسی نے تو اس تحریک کی قیادت کرنی تھی. لہٰذا آل نبی کے چاہنے والوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری زوجہ محترمہ جن کا نام حنفیہ تھا ان کی اولاد میں سے ایک شخص کا انتخاب کیا. ان کا نام محمد بن حنفیہ تھا. انھوں نے بغاوت ملوکیت امیہ کی تحریک جو کہ عروج پکڑ رہی تھی اس کی قیادت سنبھال لی تھی. اب یہ تحریک فاطمی خاندان کی بجائے علوی خاندان کے ہاتھوں میں تھی.

نیز یہ کہ اب تک اس بغاوت کی تحریک کو ایران میں کافی حمایت حاصل ہوگئی تھی. اس لئے ملوکیت بنو امیہ کا ایران میں کنٹرول کمزور ہوتا جارہا تھا. محمد بن حنفیہ کے بعد اس تحریک کی قیادت انھی کے بیٹے ابو ہاشم عبدﷲ نے سنبھال لی تھی. ابو ہاشم عبدﷲ کی وفات کے بعد علوی خاندان میں ایسی کوئی بھی شخصیت موجود نہیں تھی جو کہ اس تحریک کی قیادت کرتی.

لہٰذا عبدﷲ بن عباس کے پوتے محمد بن علی کو اس تحریک کا جھنڈا تھما دیا گیا تھا . یعنی اب یہ تحریک جو کہ بنو ہاشم کے چاہنے والوں نے شروع کی تھی فاطمی خاندان سے ہوتے ہوئے علوی میں اور علوی خاندان سے ہوتے ہوئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے خاندان والوں کے ہاتھ میں آگئی تھی.
محمد بن علی جو کہ عباسی خاندان میں سے تھے وہ اس تحریک کی قیادت کررہے تھے.

لیکن ان کی وفات کے بعد انھوں نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری اپنے بیٹے ابراہیم کو سونپ دی تھی. ابراہیم کی قیادت میں بنو ہاشم کے چاہنے والوں کی اس تحریک کو بہت تقویت حاصل ہوئی. مزید یہ ہوا کہ ایران میں ایک طاقت ور شخصیت تھی جس کا نام مسلم خراسانی تھا. اس نے کھل کر اس تحریک کی حمایت کی تھی اور ایران میں بنو امیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی .

ابراہیم کے حکم کے مطابق اس نے بنو امیہ کے ایک بھی بچے کو زندہ نہ چھوڑا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اکیلے مسلم خراسانی نے اس تحریک کی آڑ میں چھ لاکھ افراد کو خود قتل کیا تھا. لیکن جب مروان بن محمد کو اس سب کا علم ہوا تو انھوں نے ملوکیت بنو امیہ کو بچانے کی غرض سے ابراہیم کو قتل کروا دیا تھا. لیکن بد قسمتی سے مروان کا یہ قدم اس کی بربادی کا باعث بن گیا تھا .


کیونکہ ابراہیم کے قتل ہونے پر اس کے بھائی عبدﷲ المعروف ابو عباس السفاح نے تحریک بنو ہاشم کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے بنو امیہ پر ٹوٹ پڑا. اس کی قیادت میں لڑتے ہوئے اس تحریک کو کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ملوکیت بنو امیہ کا خاتمہ بھی ہوگیا تھا . لیکن دوسری طرف جو تحریک کامیاب ہوئی تھی اس نے بے رحمی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے وہ اس لئے کہ بنو عباس کی ملوکیت قائم ہونے کے بعد بنو امیہ کے مرے ہوئے بادشاہوں کو بھی کوڑے لگائے گئے.

جس میں ہشام جو کہ بیس سال پہلے چل بسا تھا اس کو بھی قبر سے نکال کر کوڑے لگائے گئے تھے. لہٰذا اس تحریک کو ملوکیت بنو عباس میں بدل دیا گیا تھا. میں اس کو ملوکیت اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے بھی بنو امیہ کی طرز پر چلتے ہوئے ظلم و بربریت کی انتہا کردی تھی. اس سارے خطے سے بنو امیہ کا خاتمہ کردیا گیا تھا . صرف ایک لڑکا جس کا نام عبدالرحمن داخل تھا وہ اس نسل کشی سے بچ نکلا تھا.

بعدازاں اس نے اسپین میں جاکر حکومت بنا لی تھی. یعنی صرف ایک جگہ بنو امیہ کا چراغ جل رہا تھا وہ بھی ایک بچے کی مرہون منت تھا . جس نے سمندر میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی تھی. یعنی کہ عرب سے بنو امیہ کا خاتمہ ہوگیا تھا.
ملوکیت بنو عباس نے عرب خطے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا. انھوں نے ساری امیدوں کے برعکس خلافت کی بجائے ملوکیت طرز حکمرانی اختیار کیا تھا.

نیز یہ کہ بنو عباس کی یہ ملوکیت پانچ سو آٹھ برس قائم رہی تھی. یہاں اصل بات یہ ہے کہ مکمل پانچ سو آٹھ برس ملوکیت بنو عباس جوں کی توں قائم نہیں رہی تھی. بلکہ اس دوران ملوکیت بنو عباس نے چار ادوار دیکھے تھے. جس میں سب پہلے دور عروج آتا ہے. جو کہ ایک سو گیارہ سال قائم رہا تھا. اس دوران ان کے دس بادشاہ جو کہ اپنے آپ کو خلیفہ کہتے تھے تخت نشین ہوئے تھے.
ان میں سب سے پہلے عبدﷲ المعروف ابو عباس السفاح  شامل ہے جو کہ اس ملوکیت کا پہلا بادشاہ تھا اور بانی بھی تھا.

اس کے بعد اس کا بھائی ابو جعفر المعروف منصور پھر ان کا بیٹا محمد مہدی پھر ان کا بیٹا محمد ہادی پھر ان کا بھائی ہارون الرشید جو کہ بہت مشہور ہوئے اور ان کا دور بنو عباس کا بہترین دور تھا. لیکن بعد میں ان کی وفات کے بعد امین رشید اور مامون رشید میں لڑائی ہوگئی جس کے نتیجے میں امین رشید مارا گیا اور مامون رشید خلیفہ بن گیا. یہ مامون رشید کا ہی دور تھا جب خلق قرآن والا مسئلہ پیدا ہوا تھا.

نیز مامون رشید ہی تھا جس نے امام احمد بن حنبل کو کوڑے لگوائے تھے اور امام مالک کے ہاتھ کاٹ دیے تھے. لیکن اس کے بعد اس کا بیٹا معتصم باللہ آیا تھا. جس نے رومیوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا. لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان ادوار میں اسلام اور قرآن کو جتنا بھی کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہو لیکن مسلم حکمرانی رومیوں کے مقابلے میں مستحکم ہی رہی تھی.


لیکن پھر اندر ہی سے انھیں زوال کا سامنا کرنا پڑا اور یوں بنو عباس کا دور عروج اختتام پذیر ہوگیا تھا. اس کے بعد دور زوال آیا تھا جس میں گیارہ خلیفہ یعنی گیارہ بادشاہ گزرے تھے. اس زوال کے بعد ایک دور ایسا بھی آیا تھا کہ بنو عباس کو محکومیت کا سامنا کرنا پڑا تھا جو کہ دو سو سے زائد سال قائم رہا تھا . لیکن اس دوران بھی بنو عباس کے خلفاء کی تاج پوشی چلتی رہی تھی.

کیونکہ عوام بنو عباس کے علاوہ دوسرے حکمرانوں کو اپنا خلیفہ نہیں مانتی تھی. لہٰذا اس دور  محکومی کے بعد دور خودمختاری آیا تھا. جس میں دوبارہ سے بغداد کا علاقہ بنو عباس کے کنٹرول میں آگیا تھا. یہ تو تھے بنو عباس کی نام نہاد خلافت کے چار ادوار، جس میں تبدیلی آتی رہی اور بنو عباس کی طاقت بھی تبدیل ہوتی رہی تھی.
بنو عباس کا عہد عروج ہو یا عہد زوال اس دوران ان کا دارالحکومت مستقل طور پر بغداد ہی رہا تھا.

بعدازاں 1258 میں ہلاکو خان نے  بغداد کو تباہ و برباد کردیا تھا. یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ چھ سو اڑتیس سال بعد پہلی مرتبہ مسلم حکمرانی کو زوال کا سامنا کرنا پڑا تھا. لیکن اس سے پہلے دنیا میں مسلم حکمرانی کا عروج ہی عروج تھا. یہاں صرف اس خطے میں ہی مسلم حکمرانی زوال پذیر ہو رہی تھی . لیکن ساتھ ہی ساتھ برصغیر پاک و ہند میں یعنی ہمارے اس خطے میں شہاب الدین غوری کی مدد سے مسلم حکمرانی کا سورج طلوع ہورہا تھا.

خیر بنو عباس جو کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئے تھے. لیکن مسلم حکمرانی اب بھی دنیا کے کسی خطے میں استحکام پذیر تھی. لیکن اب فرق یہ پڑا تھا کہ اب حکمرانی عربیوں سے عجمیوں میں تبدیل ہوگئی تھی.
گو کہ مسلم حکمرانی کو ہلاکو خان سے بچانے میں دو غلام خاندانوں نے جدوجہد کی تھی. برصغیر میں التمش جو کہ قطب الدین ایبک کا غلام تھا اس نے بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے ہلاکو خان کو برصغیر میں تباہی برپا کرنے سے بچا لیا تھا.

دوسری طرف مصر ہے جہاں بھی مملوک یعنی غلام خاندان نے عین جالوت پر ہلاکو خان کو شکست دی تھی. یوں ﷲ نے ان دو مملوک خاندانوں کی مدد سے مسلم حکمرانی کو مکمل طور پر زوال پذیر ہونے سے بچا لیا تھا. اقبال نے بھی بہت ہی خوبصورت انداز میں غلام خاندانوں کے بارے میں اپنے ایک شعر میں لکھا کہ؛
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
مسلم حکمرانی کے عروج و زوال کی یہ کہانی ابھی جاری ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :