اقامہ ہے کیا

منگل 1 اگست 2017

Hussain Jan

حُسین جان

ہمارے بہت سے دانشور ،ادیب،اخبار نویس اور کالم نگار قوم کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو اقامے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو قوم کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ اقامہ ہوتا کیا ہے اور سیاستدانوں کو اس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ بہت سے پاکستان جو عرب ممالک میں رہتے ہیں اُن کو تو اقامے کے بارے میں پتا ہے لیکن وہ لوگ جو کبھی ان ممالک میں نہیں گئے اُن کے لیے یہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

اقامہ جس کو انگریزی میں Residence کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا رہنے کا اجازت نامہ ہوتا ہے جو تقریبا ہر سال renewہوتا ہے۔ یہ اس لیے حاصل کیا جاتا ہے کہ آپ عرب ممال میں کام کرتے ہیں اور کسی بھی وقت جب تک کہ آپ کا اقامہ ویلڈ ہوآپ ان ممالک میں آرام سے آجاسکیں۔ وہ پاکستانی جو ان ممالک میں رہتے ہیں اُن کو اُن کی کمپنیاں اقامے لے کر دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن سوچنے والی بات ہے ہمارے سیاستدانوں کی ان کی ضرورت کیوں پڑتی ہے جو کہ پہلے ہی کروڑوں روپے کے مالک اور بہت سی کمپنیوں کے مالکان ہوتے ہیں۔

ایک بات پکی ہے جس جس سیاستدان کے پاس اقامہ ہے اُس کی یا اُس کے خاندان کی کوئی نہ کوئی کمپنی ان ممالک میں ضرور ہو گی۔ جیسے نواز شریف کے بیٹے کی ہے اور اُسی کمپنی نے انہیں اقامہ جاری کروایا ہے۔ تاکہ وہ جب دل کرے یہاں آسکیں۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ زرداری صاحب یا فلاں سیاستدان دُبئی چلا گیا ہے۔ تو دُبئی یا دوسرے عرب ممالک میں جا کر رہنے کے لیے اقامے کا ہونا ضروری ہے۔

اگر اقامہ نہ ہو تو ان کے پاسپورٹ پر وزٹ ویزہ لگتا ہے۔ جس کا مطلب یہ وہاں زیادہ سے زیادہ دو ماہ راہ سکتے ہیں ۔ اور اگلے دفعہ جانے کے لیے ان کو دوبارا ویزہ لگوانا پڑے گا۔
اس میں ایک پوائنٹ تو یہ بنتا ہے کہ آپ جس ملک میں سیاست کر رہے ہیں ۔ جس ملک میں وزیر لگے ہیں۔ جہاں کی پروٹوکول کو انجوائے کر رہے ہیں آپ کو اُس ملک پر اتنا بھی بھروسہ نہیں کہ اپنی کمپنیاں اس ملک میں لگائیں۔

دوسری یہ ایک طرح کی مستقبل کی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے کہ اگر انہیں ایمرجینسی میں ملک سے بھاگنا پڑئے تو اقامے کی صورت میں ویزہ ہروقت تیارہو۔ نواز شریف ، اسحاق ڈار، خواجہ آصف جیسے بہت سے سیاستدانوں نے اقامے رکھے ہوئے ہیں ۔ آپ سوچ کر بتایں کیا یہ ملک کے ساتھ غداری نہیں۔ کہ آپ موج میلہ تو یہاں کریں لیکن مستقل جگہ کسی اور ملک کے لیے بچا رکھیں۔

اگر آپ نے ان ممالک میں جانا ہی ہے تو وزٹ ویزہ پر جائیں۔ اس کے لیے اقامہ کی کیا ضرورت ہے۔ اب یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ملک کا وزیر آعظم ،وزیر خزانہ، وزیر پانی و بجلی، سابقہ صدر دوسرے ممالک میں نوکریاں کرتے ہیں۔ کیا آپ ان لوگوں سے اُمید کرتے ہیں کہ ان کے زریعے ملک کے راز دوسرے ممالک تک نہیں پہنچتے ہوں گیں۔ بھائی سیدھی سی با ت ہے آپ قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

ایک طرف تو ملک میں حکمرانی کے مزے لیے جارہے ہیں تو دوسری طرف ملک کو بدنام بھی کیا جا رہا ہے۔ تو یہ ہے اقاموں کی اصلیت۔ اگر اس قوم کو اپنے سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہے تو اُس کے لیے بڑئے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ نیا عمرانی معاہدہ لکھا جائے۔ جس میں 62, 63جیسی تلوار حکمرانوں کے سر پر نا لٹکتی ہو۔ اس کا مطلب بڑا واضع ہے کہ آپ نے جیسے اس قوم کو پچھلے 70سالوں سے بھدو بنا رکھا ہے اب مزید اس کو بھدو ہی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔

کیا کسی قو م کا حق نہیں کہ اُس پر حکمرانی کرنے والے لوگ ایماندار، نیک صادق اورامین اور کردارکے مظبوط ہوں۔ آپ بتایں آپ لوگوں کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آیا۔ سعد رفیق صاحب سیاستدان جتنے بھی ہیں جب غریب لاغر وں سے ووٹ لینے آتے ہیں تو کروڑوں روپے کی پراڈو میں بیٹھ کر آتے ہیں۔ آپ لوگ بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں غریب لوگوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں۔

بس کریں اب اور کتنا خون چوسیں گے اس لاغر قوم کا۔
عدالت نے ایک نواز شریف کو نااہل کیا قرار دے دیا ہے ہر طرف سے چیخ و پکار شروع ہو گئی ہے۔ کسی کو اس میں عالمی سازش نظر آتی ہے تو کسی کو یہودی ایجنڈا دیکھائی دے رہا ہے۔ سیدھی سی بات ہے عدالت نے پوچھا آپ بتایں آپ کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آیا ۔ لندن فلیٹ جن روپوں سے خریدے گئے وہ کہاں سے آے اور پھر باہر کیسے گئے۔

آپ اپنے جوابات کے زریعے عدالت کو مطمن نہیں کر پائے لہذا عدالت نے آپ کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ پھر شور اُٹھ رہا ہے کہ اگر نواز شریف حکومت میں نہ ہوئے تو اس ملک کا چلنا محال ہے۔ کیا قائد کی وفات کے بعد یہ ملک نہیں چلا ۔ کیا لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک کو نہیں چلایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ان لوگوں کے بعد اس قوم کو دیانت دار لیڈر نصیب نہیں ہوا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی سیاستدان کے چلے جانے سے ملکی ترقی رک جاتی ہے یا ملک برباد ہو جاتا ہے۔ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے ہیں۔ لیکن ہاں اب احتساب کا وقت ہے۔ اگر یہ سازش ہوتی تو اب زرداری کی طرف نہ جاتی۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو اب کسی صورت نہیں رکے گی۔ اگر آپ عوام کا خیال نہیں رکھ سکتے تو آپ کو اس عوام پر حکومت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔

حکومت آپ ہم پر کریں اور نوکریاں دوسرے ممالک میں کریں۔ مشرف ہو یا کوئی اور جس جس نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اُسے گھسیٹ کر لایا جاے اور اُن کا احتساب کیا جائے تاکہ آیندہ آنے والے حکمران ان سے عبرت پکڑیں ۔ حکومت کوئی بھی سیاسی جماعت بناے لیکن فیصلے خالصتا عوامی مفاد میں ہونے چاہیں ذاتی مفاد میں نہیں۔ غریب عوام کو بھی ہر چیز میسر جو آپ کو اور آپ کے بچوں کو میسر ہے۔ تعلیم ،روزگار، صحت پر سب کا حق یکساں ہو۔ یہ نہ ہو کہ آپ تو ایک ٹیکہ لگوانے بھی باہر بھاگ جائیں اور عوام کو ظالم سرکاری ڈاکٹروں نے نرخے میں دے جایں۔ اقامے کی آڑ لینا چھوڑیں پاکستان میں ہی نوکریاں تلاش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :