دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت

ہفتہ 9 ستمبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

قصہ کچھ پرانا ہے لیکن سنائے بنا آگے نہیں بڑھا جائے گا۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں ہم ایک پر چے میں فیل ہو گئے۔ لیکن کتابیں پڑھنے کا شوق مجھے بچپن سے ہی ہے۔ سب بھائیوں نے عمرو عیار سے لے کر جاسوسی ڈائجسٹ تک سب چاٹ مارے تھے۔ لہذا کتابیں پڑھنے سے انسان میں کچھ نہ کچھ عقل آجاتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ میں اس سے مبرا ہوں۔ خیر ایک دن بڑئے بھائی سے کسی بات پر بحث چل رہی تھی۔

میں مختلف دلیلیں دے کر اپنا موقف بیان کر رہا تھا ۔ قریب ہی تھا کہ میں جیت جاتا لیکن بھائی نے ایسی بات کر دی کہ میری تمام دلیلیں دھری کی دھری راہ گئی۔ اُس نے کہا باتیں تو اتنی کر رہے ہو امتحان میں پاس ہو نہیں سکے۔ بس پھر کیا تھا میں نے اس بحث کو اپنی شکست کے ساتھ سمیٹ دیا۔
ہم لوگ اکثر ایک دوسرے کو"مفید"مشوروں سے نواز رہے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ ہم سے مشورہ نہ بھی مانگا جاے لیکن ہم دینا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ اب کیا لوگ آپ کے مشورے کو اہمیت دیتے ہیں اس کو جاننے کے لیے پہلے آپ اپنی اوقات پر نظر ڈورائیں۔ چلیں بات کو کچھ تفصیل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ فرض کر لیتے ہیں آپ کے کسی جاننے والا کا پیٹ کافی بڑا ہے اور وہ اس مصیبت سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

اب وہ آپ کے سامنے اپنی اس مجبوری کو بیان کرے تو آپ یقینا بہت سے مشوریں دے گے کہ کم کھایا کرو، ورزش کیا کرو، سلاد کا استعمال بڑھا دو، بوتلیں پینی چھوڑ دو، واک کیا کرو، وغیرہ وغیرہ۔ بات سیدھی سی ہے اگر تو آپ کی توند چھوٹی ہے تو آ پ کے مشورے کو اہمیت بھی دی جائے گی اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔ لیکن اگر آپ کی بیلی بھی جنا ب جیسے بھولی ہوئی ہے تو آپ کی رائے کو ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا جائے گا۔


اسی طرح اگر آپ کا رنگ کالا ہے لیکن اکثر آپ لوگوں کو رنگ گورا کرنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں تو کوئی بھی آپ کے مشورئے پر کان نہیں دھرے گا۔ ہماری ایک عزیزہ ہیں ماشاء اللہ ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ موصوفہ کا رنگ کالا ہے یا آف براؤن۔ لیکن خاندان میں تمام لوگوں کو مشورئے دیتی پائی جاتی ہیں کہ اگر رنگ گورا کرنا ہے تو بیسن کودودھ میں ملا کر منہ پر لگایا کرو۔

دودھ دہی کا استعمال زیادہ کرو۔ سلاد کو اپنی خوراک کا حصہ بناؤ۔ بلکہ یہی نہیں ہوسکے تو کسی اچھی سی کریم کا بھی استعمال کریں۔ اب جس کو مشورہ دیا جاتا ہے وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ بھائی خود کا رنگ تو کالا ہے اگر ایسی باتوں سے رنگ گورا ہو سکتا تو خود اپنا نہ کر لیتیں۔ اسی طرح اگر آپ کے پاس گاڑی نہیں ہے اور آپ دوسرے لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ گاڑی کو فٹ کیسے رکھا جائے تو وہ بھی آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گ۔

یہی حال سگریٹ پینے والوں کا ہے۔ آپ خود تو چین سموکر ہیں مگر دوسروں کو سگریٹ چھوڑنے کے لاکھ گر بتاتے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی آپ کے نسخوں کوسیریس نہیں لیتا کیونکہ آپ خود سگریٹ نہیں چھوڑ رہے۔
اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں۔ ایک صاحب پی ایچ ڈی ہیں اور آپ کو پڑھنے اور آگے بڑھنے کے مشورئے دے رہے ہیں تو آپ اُن کے مشوروں پر پورا پورا سنجیدگی سے عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

کیونکہ آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جناب خود بھی پڑھے لکھے اور ایک کامیاب آدمی ہیں۔ اگر کوئی کامیاب کاروباری بندہ آپ کو کاروبار کے گر سکھائے گا تو آپ اُن کے مشوروں کو من و عن تسلیم کرلیں گے۔ گورے رنگ والا رنگ کو گورا کرنے کا طریقہ بتائے گا تو آپ مان جائے گے۔ لوگ کامیابی کے گر سیکھنے کے لیے ہمیشہ کامیاب لوگوں کی کتابیں اور اقوال زریں پڑھتے ہیں۔

کیونکہ وہ لوگ کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی بات پر عمل کریں تو پہلے آپ کو خود وہ عمل کر کے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنا پڑتا ہے۔ تب ہی لوگ آپ کی بات کا یقین کریں گے۔ سیاست میں بھی ایسے ہی ہے۔ اگر ایک کامیاب سیاستدان ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر سیاست پر سیر حاصل گفتگو کرتا ہے تو لوگ اُس کو باتوں کو غور سے سنتے اور یقین بھی کرتے پائے جاتے ہیں۔

لیکن یہی حال اگر کسی ناکام سیاستدان کو ہو تو لوگ اُس کی بات کی بھبھکیاں اُڑائیں گے کہ خود تو جناب کے پاس ایک سیٹ ہے مگر پورے ملکی سیاسی منظرنامے کی تصویر کشی کر دی ہے۔
حکومتیں دوسرئے ممالک کو اپنے ملک میں سرمایا کاری کی دعوت دیتی ہیں ۔ پھر لوگ دیکھتے ہیں کہ کیایہ لوگ خوبدبھی اپنے ملک میں سرمایا کاری کر رہے ہیں کہ نہیں۔ اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اپنے بچوں کے کاروبار تو باہر ہیں لہذا وہ بھی ملک میں سرمایا کاری نہیں لاتے۔

دہشت گردی کوہی دیکھ لیں، دوسرئے ملک کے مامے بننے سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنا پڑے گا۔ پھر دہشت گردی پر دوسرئے ممالک ہمارے موقف کی تائید کریں گے۔ تعلیم کے شعبے میں دیکھ لیں سیاستدان کہتے ہیں آپ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروائے مگرا ُن کے اپنے بچے مہنگے مہنگے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں یا کچھ کے بچے ملک سے باہر تعلیم کی روشنی سے منور ہو رہے ہوتے ہیں۔


پہلے اپنے آپ کو درست کرنا پڑتا ہے پھر دوسروں کو مشورا دیں۔ عمل ایک ایسی چیز ہے جو انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔ باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے عمل کرنا مشکل کام ہے۔ اگر آپ عمل کریں گے تو معاشرہ آپ کی باتوں پر من و عن عمل کرے گا۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ باتیں کرنا تو سب کو آتا ہے مگر کام کرنا کسی کسی کو آتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :