نکمے سیاسی عاشق

ہفتہ 19 جنوری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

عاشق کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم کسی کو عاشق کے نام سے پکارتے ہیں تو عموما ذہن میں ایک نامدار قسم کے شخص کا خاکہ اُبھر آتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر گلی کوچوں ،سکول کالجوں میں پائے جاتے ہیں۔ ہاں یونیورسٹیوں سے یہ دور ہی بھاگتے ہیں۔ ایک تو وہاں چھترول کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں دوسرا ان کا عشق کبھی ان کو وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔

کیونکہ معشوق کووہاں کافی ورائٹی میسر آجاتی ہے۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ عاشق سیاستدانوں کے بھی ہوتے ہیں ۔ آپ اس قسم کے عاشقوں کو ڈھیٹ قسم کے عاشق کہ سکتے ہیں۔ یہ تب تک اپنے معشوق سے عشق کرنے کا دعوع کرتے پائے جاتے ہیں ۔ جب تک ان کو یقین نہ ہوجائے کہ اب ان تلوں میں تیل نہیں رہا۔ ایسے عاشق مفت کی پبلسٹی بھی ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جب جہاں ان کو موقہ ملتا ہے یہ اپنے ہر دل عزیز لیڈر کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ میڈیا سارا سارا دن ان کے معشوق کے لتے لیتا نظر آتا ہے۔
اب آپ کو سیاسی عاشقوں کی تفصیل بتاتے ہیں۔ جیسا کہ اُوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ زرا ڈھیٹ قسم کے عاشق ہوتے ہیں۔ اُنہی عاشقوں کی وجہ سے حقیقی عاشقوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ یہ نامراد بڑئے ہی مفاد پرست قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ الیکشن کا موسم ان کا پسندیدہ ترین موسم ہوتا ہے۔

ایک زمانے میں یہ صرف بریانی پلیٹ پر ہی گزارہ کر لیتے تھے۔ لیکن آج کل کمبخت ، میز کرسیوں کے علاوہ رقم کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ جس طرح ہر چیز کا ایک سیزن ہوتا ہے ۔ جیسے آم گرمیوں میں آتے اور بہت بکتے۔ مالٹے سردیوں میں آتے اور لوگ انے واہ کھاتے ہیں۔ اسی طرح ان کا سیزن الیکن ہوتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس موسم میں زیادہ سے زیادہ سیل کرلیں کیونکہ ان کو بھی پتا ہوتا ہے کہ بعد میں معشوق نما سیاستدان نے ان کومنہ بھی نہیں لگانا۔

پہلے زمانوں میں یہ لوگوں کو آکر بتایا کرتے تھے کہ ہم علاقے کے فلاں سیاستدان سے مل کر آرہے ہیں۔ لیکن آج کل فیس بک پر ایک تصویر ہی کافی ہوتی ہے۔ ادھر کوئی ایکٹیویٹی کی اُدھر جھٹ سے کچھ تصاویر فیس بک پر پوسٹ کردیں۔ اس سے لوگوں میں ان کا رعب بنا رہتا ہے۔ باس کے دفتر میں دم سادھے بیٹھے یہ لوگ باہر آکر عجیب و غریب کہانیاں سناتے ہیں کہ ہمارے استقبال کے لیے جناب خود تشریف لائے۔

اُنہوں نے ہماری خدمت کے لیے ملازموں کی پوری فوج آگے کردی۔
یہ سیاسی عاشق ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ جب اُمیدوار میدان میں اُترتے ہیں تو یہ بھی ساتھ ہی اپنے اپنے لنگوٹ کس لیتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ بھی جوا کے مترادف ہے۔ اگر آپ کا اُمیدوار یعنی معشوق الیکشن میں جیت گیا تو آپ کے پوں بارہ(یعنی قسمت کھل جائے گی)ہوتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے ان کا محبوب لیڈر الیکشن میں ہار گیا تو سمجیں ان کے تین کانے (یعنی تشریف پر لاتے پڑنی) ہیں۔

ایک با ت اور بھی یاد رکھیں یہ خاندانی عاشق ہوتے ہیں۔ یعنی لیڈر کے بچوں سے لیکر اُس کے کتے تک سے بھی عشق لڑاتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم نے اپنے سیاسی عاشق دوست کو کافی بری حالت میں دیکھا استسفار کرنے پر موصوف نے بتایا کہ یار اپنے محبوب کو ملنے گیا تھا۔ کمبخت کے کتے نے پنڈلی پر کاٹ لیا۔ اور ایسا کاٹا کہ ٹیکے لگنے بھی محال ہیں۔
ایسے عاشق ذات برادری کا نام بہت شان سے بیان کرتے ہیں۔

ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب لیڈر کو اپنی برادری کی تعداد سے مرغوب رکھا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ برادری ان جیسے نکمے لوگوں کو پہلے ہی باہر پھینک دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑی رغبت سے نام کے ساتھ، ملک، رانا، راجپوت ، ارائیں، ٹوانہ ، شیخ، چھٹہ، مغل، اعوان، اور پتا نہیں کس کس کا سابقہ لگاتے ہیں۔ برادری کا بچہ بچہ ان کو زلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔

یہ ہر ایک کے ماما چاچا بنے پھرتے ہیں۔
لطیفہ کچھ یوں کہ ہمارے علاقے کے کچھ بڑئے عاشقوں نے ایک سیاسی اُمیدوار کو دل کھول کر لوٹا۔ بچٹ اگر دس دفتروں کا لیا تو کھولے صرف تین دفتر ۔ اس کے ساتھ ساتھ چائے پانی کا خرچہ الگ۔ اُمید وار خوش تھا کہ میرے ورکر نما عاشق دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ لہذا میری جیت طے ہے۔ اس غلط فہمی میں جناب سارا سارا دن اکڑے پھرتے رہتے تھے۔

کبھی ایک جگہ جلسے میں جاتے کبھی دوسری جگہ۔ آخری رات تک جناب پر اُمید تھے ۔ مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کے الیکشن ہار گئے۔ بعد میں بزرگ عاشق جب اُن کے گھر تعزیت کے لیے گئے۔ تو اُنہوں نے وہی کتے جن سے کبھی بزرگ عاشق دل و جان سے عشق لڑاتے تھے۔ اُن پر چھوڑ دیے۔ سنا بہت سے عاشق تو دھوتیاں تک وہیں چھوڑ آئے کہ زندگی باقی رہی تو الیکشن تو ہوتے ہی رہیں گے لہذا دھوتیاں پھر بھی بن جائیں گی فی الحال جان بچا کر تو نکلے۔


ان عاشقوں میں خوشامد کی خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے میں یہ ید طولیٰ ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی قلابازیالگاتے ہیں کہ بس کیا بتائیں۔ ان کا کام ہوتا ہے کہ اپنے لیڈر کو مخالف لیڈر سے ہمیشہ خوف زدہ رکھیں ۔ ویسے یہ ہر وقت تعریف کے پل باندھے رہتے ہیں۔ کہیں گے چوہدری صاحب آپ کی شخصیت کے آگے دشمن کیا بھرتا ہے۔ آپ کا تو رعب بھی بہت ہے۔

اور پھر آپ خاندانی انسان ہیں ۔ جبکہ آپ کا مخالف للو سا دیکھائی دیتا ہے۔ ٹٹ پونچی ہے۔ جب آپ کو لوگ دیکھتے ہیں تو فورا فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ووٹ تو اس دفعہ چوہدری صاحب کو ہی دیں گے۔ لوگ آپ کی کارگردگی سے بہت خوش ہیں۔ گزشتہ الیکشن جیتنے کے باوجود آپ حلقے میں ایک دفعہ بھی تشریف نہیں لائے ۔ لیکن اس کے باوجود ووٹ آپ کو ہی پڑئیں گے۔ ہم نے ایسی ایسی ٹیمیں تیار کر رکھی ہیں جو الیکشن کے دن لوگوں کو دھڑا دھڑ گھروں سے نکالیں گے اور آپ کو ووٹ ڈلوائیں گے۔

ہم نے تو آپ کے مخالف اُمیدوار کے حمایتی بھی آپ کی طرف کر دیے ہیں ۔ وہ اُوپر اُوپر سے اُس کے ساتھ جبکہ اند ر سے اپنے ہی بندے ہیں۔ اسی طرح کی باتیں ، یعنی مکھن ، لگا کر اور خوشامد کرکے۔ اُمیدوار کو کسی قابل نہیں سمجھتے اور نتیجہ نکلتا ہے صفر بٹا صفر۔
جب تک سیاستدان ایسے عاشقوں سے خود کو دور نہیں رکھتے عوام کی بھلائی کبھی نہیں ہوسکتی۔ یہ لوگ مفاد پرست ہوتے ہیں۔ اپنے مفاد کی خاطر دوسرے لوگوں کا نقصان کرتے ہیں۔ یہ عاشق نامدار کسی بھی ملک، سیاسی جماعت کے لیے زہر قاتل ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :