فلسفہ زندگی

بدھ 20 جنوری 2021

Ijaz Hussain

اعجاز حسین

زندگی ایک دوڑ کا نام ہے اک ایسا سفر جس میں انسان مسلسل دوڑتا رہتا ہے یہ دوڑ اپنی منزل مقصود کی دوڑ ہوتی ہے جس کی بنیاد عزم صمیم پر منحصر ہوتی ہے
اس دوڑ میں کچھ لوگ تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ یکے بعد دیگرے اس دوڑ کو جاری رکھتے ہیں
جو دوڑ کو جاری رکھتے ہیں ان میں سے چند لوگوں کو موقع پیدائش ہی مل جاتا ہے ،اس میں اپنی محنت ہو سکتی، والدین کی محنت ہو سکتی، اور وہ تمام موزوں عوامل حاصل ہوتے ہیں جن کو وہ بروکار لاتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں
اب دوسری قسم کے وہ لوگ جن کو مجبوریوں اور حالات کے کٹھن سفر نے آگے نہیں بڑھنے دیا
 اور جو تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے محنت کی ہوتی ہے اور وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے
نسبت کے لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں 100 میں سے ایک
اب آتے ہیں ان حالات کی طرف جن کی وجہ سے انسان دل برداشتہ ہو جاتا ہے،ایسے حالات جو روکاوٹ بنتے ہیں یا جن سے ہم دل برداشتہ ہو کر اپنی منزل کو ہی ترک کر دیتے ہیں
ان میں معاشرہ،غربت، گھریلوں حالات،اچھی منزل کا انتخاب نا کر پانا،وقت کی قدر نا کرنا،اور وہ لوگ جو اک انسان کے ارد گرد رہ رہے ہوتے ہیں
اب ایک انسان کی صحبت کس طرح اس کی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے؟
انسان اپنے ماحول اور صحبت سے سیکھتا ہے کچھ لوگ پر امید ہوتے ہیں جو ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور مشکلات کو ذہین پر سوار نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو اپنی منزل کی طرف حائل ہونے نہیں دیتے ہیں حالات جیسے بھی ہوں ان کو اپنے مطابق ڈھالنے کا فن حاصل ہوتا ہے
اور کچھ لوگ حالات کو رونا روتے رہتے ہیں تھوڑی سی مشکالات آتے ہی وہ اپنی منزل سے دستبردار ہو جاتے ہیں
لکین معاشرے کا حسن انہی لوگوں سے ہوتا ہے
بعض دفعہ میں سوچتا ہوں کہ شاید ان تمام لوگوں کی موجودگی سے ہی زندگی کا توازن ہے نفرت سے نفرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر نفرت نہ ہوتی تا تو پھر پیار و محبت کا احساس کیسے ہوتا؟ برائی نہ ہوتی توپھر اچھائی کا احساس کیسے ہوتا؟ موت نہ ہوتی تو تو پھر زندگی اہمیت کا اندازہ کیسے ہوتا؟ اولاد نہ ہوتی تو بے اولادی کے دکھ کا کَرب کا اندازہ کیسے ہوتا؟ دراصل یہ تمام چیزیں زندگی کا حسن ہیں
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان زندگی سے بے زار، خفا، اداس اور پریشان ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اسے اپنے روزمرّہ کی معمولات سے اُکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ وہ پُراسائش زندگی جو کہ دوسروں کے لیے ایک خواب ہوتی ہے مگروہ انسان اس سے دور بھاگنا چاہتا ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ کہیں دور بہت ہی دور نِکل جائے اور تنہائی میں جا کر خوب روئے۔ میری اس موضوع پر کئی اعلی تعلیم یافتہ اور بہترین بھرپور زندگی گزارنے والے پروفیسرز، ڈاکٹرز، سرکاری عہدہ دار اور کامیاب کاروباری حضرات سے بات ہوئی ہے
ان میں سے اکژیت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ واقعتا کبھی کبھی اِن کا دِل ایسا کرتا ہے کہ زندگی معمولات سے بھاگ جائیں اور کچھ وقت صرف اور صرف اپنے ساتھ گزاریں۔

انسان اپنے اندر کچھ تلاش کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے پیغمبر، مذہبی پیشوا، راہب، بدھا اور اس کے پیروکارتنہائی اور خاموشی کو پسند کرتے تھے تاکہ ان کی اپنے آپ اور اپنے خالق سے ملاقات ہو سکے بقول مرزا غالب ؂
دِل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دِن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
لیکن اس بھاگتی اور تیزی سے گزرتی ہوئی زندگی میں کسی موڑ پر کوئی انسان ایسا بھی مِل جاتا ہے کہا آپ کو زندگی حَسین لگنے لگتی ہے۔

زندگی با معنی اور لطیف ہو جاتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو بہت اہم اور ہلکا پھلکا سا محسوس کرنے لگتا ہے۔ بھرپور زندگی گزارنے کو دِل کرتا ہے۔ زندگی سے جڑی ہر چیز پیاری لگنے لگتی ہے اور زندگی کا کٹھن سے کٹھن سفر بھی راحت دینے لگتا ہے۔ دِل کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ سفر طویل سے طویل ہو جائے اور کبھی ختم نہ ہو۔ یہ انسان کے اندر کی تبدیلی ہے جو اسے زندہ رہنے کے احساس کے ساتھ زندگی اور زندگی سے جڑی ہر شے سے پیار سکھاتی ہے۔

سرور بارہ بنکوّی نے ایک با ر کہا تھا ؂
جن سے مِل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
انسان نے کبھی سلطنت، قوموں کا عروج دیکھا، تو کبھی زوال کبھی اسے اپنے ہی جیسے انسانوں کی سفاکی اور شقی القلبی کا ماتم کرنا پڑا تو کہیں‌ اس نے رحم دل اور نہایت مہربان حکم رانوں‌ کی وجہ سے لوگوں کو‌ خوش اور شاد باد پایا غرض کہ انسان نے زندگی کے کتنے ہی روپ دیکھ لیے، لیکن آج بھی یہ اس کے لیے نئی اور پُرکشش ہے
حالات جیسے بھی ہوں ہمیں اپنے مقصد کو ترک نہیں کرنا چاہیے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں
کیوں زندگی زندہ دلی کا نام ہے
بقول شاعر: امام بخش ناسخ
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :