"وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے"

پیر 1 فروری 2021

Ijaz Hussain

اعجاز حسین

الیکشن سے قبل تمام سیاسی جماعتیں،عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے وعدؤں کے ڈھیر لگا دیتی ہیں اور جب وقت آتا ہے تو کوئی بھی وعدہ پائے تکمیل تک نہیں پہنچتا
اس پر الطاف حسین حالی فرماتے ہیں
"وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا "
اور اس کی تشریح زرداری صاحب نے بھی اپنے ایک بیان میں کر دی تھی
" وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے"
بہرحال یہ سلسلہ آگر بڑھتا گیا اور سیاستدانوں نے اس مصرعے کو اپنا نصب العین ہی بنا لیا ہے
میں نے سوچا ان وعدوں اور دعووں کا احاطہ کروں جو تین سال قبل ہونے والے الیکشن سے قبل ہمارے مجوزہ حکمرانوں نے ہم سے کئے تھے کسی نے روشن پاکستان کے خواب دکھاتے ہوئے تو کسی نے تبدیلی کا نعرہ لگاتےہوئے اور کسی نے ایک واری پھر کے نعرے سے ہمیں ڈراتے ہوئے لیکن ذہن پہ زور دینے کے باوجود کسی کا کوئی وعدہ یاد نہیں آ رہا تھا
 یہ کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے ذہن کو ہم اپنے مہربانوں کے وعدے تک بھول جاتے ہیں  
 اگر آپ کی یاداشت بھی میری طرح کمزور ہے تو آئیے کچھ دوہرائی کر لیں
میں صرف ان وعدوں اور دعوؤں کا ذکر کروں گا جو مختلف پارٹی لیڈرز نے 2018 الیکشن میں کئے تھے

(جاری ہے)

کیا آپ کو خوشحالی سے ہمکنار پاکستان چاہئے؟ یا پاکستان کے لئے بدامنی ،دہشتگردی اور افرا تفری چاہئے؟
٭ میں پاکستان کی تقدیر کو بدلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے روشن پاکستان نظر آ رہا ہے
٭قوم کو بھکاری بنا دیا ہے مجھے یہ قبول نہیں ہے
٭اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
٭ ہم پاکستان کو دنیا کی پہلی اقتصادی قوت بنائیں گے
٭ نوجوانوں کو باعزت روزگار اور بغیر سود کے قرضے دیں گے
٭ تعلیم سب کے لئے، پینے کا صاف پانی اولین ترجیح، بروقت سستا انصاف
٭ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اگر فلاں پروجیکٹ کو ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا سکتا ہے وغیرہ تو بجلی کا بحران کیوں نہیں حل ہو سکتا؟
٭ اگر اندھیرے دو سال میں ختم نہ ہوئے تو میرا نام۔

۔۔۔۔ نہیں ہے ملک میں بجلی کا مسئلہ ہم ختم کر دیں گے۔ہم چھوٹے اور بڑے ڈیم بنائیں گے
٭ بجلی کے ریٹ بڑھے تو چین سے نہیں بیٹھوں گا
٭ کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائیں گے جو کہ سات گھنٹوں میں کراچی سے پشاور جبکہ ساڑھے تین سے چار گھنٹے میں ملتان پہنچے گی۔ کراچی کی وہ خدمت کریں گے کہ کراچی بھی یاد رکھے گا انشاء اللہ
٭ ہزارہ کو الگ صوبہ بنائیں گے۔

٭ چنیوٹ میں لوہے سونے اور تانبے کے انبار ہیں اب ہم کشکول کو اوپر سے پھینک کر توڑ دیں گے
٭ میں نے فلاں کو فلاں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام فلاں فلاں نہیں ہے
(2)میں ہمیشہ اپنی قوم سے سچ بولوں گا
٭ پاکستان سے ظلم ختم کرنے کے لئے ہم جہاد کریں گے
٭ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہو گا میری جائیداد ملک سے باہر نہیں ہوگی نہ اقتدار سے فائدہ اٹھاؤں گا نہ رشتے داروں کو نوازوں گا
٭ آپکے پیسوں کی حفاظت کروں گا۔

کسی بھی ظلم میں ہر پاکستانی کے ساتھ ہم کھڑے ہوں گے
٭ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے
٭ 90 دن میں بلدیاتی انتخابات کرائیں گے کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ملک کو اسلحے سے پاک کر دیں گے
٭ لوڈشیڈنگ کے مسائل تین سال میں حل کر دیں گے صوبائی گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز کو لائبریری یا تعلیمی اداروں میں بدل دیں گے
٭ 5 سالوں میں تعلیم پر 2500 بلین خرچ کئے جائیں گے سرکاری سکولوں پر پانچ گنا زیادہ خرچ کیا جائے گا ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فروغ۔

وزیروں کو فنڈ دینے کی بجائے لوکل ذمہ داران کو فنڈ دئیے جائیں گے
(3) جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنایا جائے گا۔ مردان میں یونیورسٹی کا قیام کریں گے۔
٭ مردان میں خواتین کے لئے الگ سفر کے ذرائع۔
٭ دوسرے فیز میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ 2000 کرنے کا پروگرام اور اس کے دائرہ کار میں اضافہ۔
یہ ہے خلاصہ ان سبز باغات کا جو
2018 کے الیکشنز سے پہلے ہمارے مجوزہ حکمرانوں نے ہمیں دکھائے۔


موجودہ حکمران جماعت نے بھی اس ہی روش پر چلتے ہوئے، الیکشن سے قبل عوام کو بے شمار سنہرے خواب دیکھائے تھے۔
مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان وعدؤں کی تکمیل ایک جانب، موجودہ حکمرانوں کی روش سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ، وہ تو اس بات کو ہی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ الیکشن سے قبل عوام کو انھوں نے کیسے سنہرے باغ دیکھائے تھے ۔
حکمران جماعت کے دیکھا ئے ان خوابوں میں

ملک سے بیروزگاری کے خاتمہ کیلئے ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں کو باعزت روزگار کی فراہمی
2۔ بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی
3۔بیرونی قرضوں سے نجات ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی
4۔وزیر اعظم ہاؤس سمیت تمام اہم سرکاری رہائش گاہوں کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنااور ملکی معیشیت میں بہتر ی کے وعدے شامل  تھے
مگر افسوس اس بات کا ہے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود ان کی تکمیل کیلئے علانات کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔


نوجوانوں کو نوکریاں دینا ایک جانب موجودہ حکومت کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو عدم ادائیگی کی دجہ سے لاکھوں افراد تنخواہوں سے محروم ہیں
انسداد تجاوزات مہم کے نام پر ہزاروں افراد کے کاروبار کا خاتمہ کر کے ان کو بے روزگار کر دیا گیا، بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ایک اسکیم کا علان تو کیا گیا مگر اس میں گھروں کی قیمتیں اتنی مقرر کی گئیں ہیں کہ یہ اسکیم بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنے سے ذیادہ غریب عوام سے مزاق لگتی ہے ، وزیر اعظم ہاؤس سمیت تمام اہم سرکاری رہائش گاہوں کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا وعدہ بھی چھ ماہ گزرنے کے باوجود تاحال محض اعلانات تک ہی محدود ہے۔


بیرونی قرضوں سے نجات دلانے کی دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ علانات کیے گئے تھے کہ خود کشی کر لوں گا مگر بھیک نہیں مانگوں گا مگر اقدار میں آتے عوام کو مزید بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ، پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے کے بجائے بڑھا دئیے گئے ، ڈالر کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا جس سے ملک کی معیشیت مزید تباہی کی جانب رواں ہوگئی اور ان کو سنبھالنے کیلئے مرغیوں اور کٹھوں کی افزائش کی پالیسی بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔
موجودہ حکومت کے اس رویہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اس محاورے کو سنجیدگی کے ساتھ عملی طور پر عوام کو واضح کرنا چاہتی ہے کہ
"وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہو جائے"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :