اگر تم درد رکھتے ہو

منگل 1 ستمبر 2020

Imam Saafi

امام صافی

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ
سنو ایوان اقتدار کے مکینو!
سنو اقتدار کی ہوس کے اندھو!
سنو! طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح ہر چیز کو روند دینے والے صاحب قوت لوگو!
سنو اقتدار کی رسہ کشی میں ہر حد پھلانگنے والو!
سنو! اگر تمیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، سازشیں کرنے اور مخالفین کو چت کرنے سے فرصت ملے تو  یہاں بہت سے لوگ خاک میں لت پت پڑے تمہارے منتظر ہیں، جو تمہاری ذمہ داری ہیں۔


اگر تمیں ایک دوسرے کو ننگا کرنے سے فرصت ملے تو ذرا ان ننگ دھڑنگ لوگوں پر نظر کرم کرنا جو تمہاری غیر ذمہ داریوں کے باعث زندگی سے عاجز آئے ہوئے ہیں۔
ایک ایک جلسے پر پانچ پانچ کروڑ خرچ کرنے والو! کیا تم خود کو ان غریبوں کا خیر خواہ کہتے ہو جو دوا کے پیسے نہ ہونے کے باعث ہسپتالوں کے سامنے سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں؟
ایک مہمان کے ایک عشائیے پر ایک کروڑ خرچ کرنے والو! یہ بھوک سے بلکتے نیم مردہ اجسام تمہیں اپنی عیاشیوں میں دکھائی نہیں دیتے؟
ہیلی کاپٹروں اور بیس بیس گاڑیوں کے پروٹوکول میں سفر کرنے والو! کیا کبھی تمہیں ان غریبوں کے درد کا احساس ہوا ہے جو اپنے تڑپتے ہوئے پیاروں کو ایمبولینس نہ ہونے کے باعث گود میں اٹھائے ہانپتے کانپتے ہسپتال کی جانب دوڑتے ہیں اور جب پہنچتے ہیں تو ڈاکٹر کہتا ہے کہ افسوس تم کچھ دیر قبل آجاتے۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔
سنو!سنو! سینکڑوں کنالوں پر محیط عشرت کدے بنانے والو! اسی دیس میں روز فٹ پاتھوں پر کتنے ہی لوگ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر لاشوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
تمہیں علاج کے لیے لندن سے نزدیک کوئی جگہ نہیں ملتی جبکہ یہاں عورتیں سڑکوں پر بچے جن رہی ہیں۔
تمہیں مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے اتحاد کرنے آتے ہیں لیکن اپنی رعایا، اپنی ذمہ داری، یعنی اپنی غریب عوام کے مسائل کے حل کی خاطر آپس میں اتحاد کرنے سے گریزاں ہو کیونکہ تمہاری انا اور سیاسی مفادات آڑے آتے ہیں۔


سنو! یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ صرف عیاشی کی خاطر قصر حکومت کے لیے دھینگا مشتی کرنے والو! گلی کوچوں میں سسکتے بلکتے بچوں کی سسکیاں سنو، ان کی تکلیف سے تڑپتے والدین کی آہوں کو سنو، غربت کے باعث اپنی عصمتوں کو نیلام کرتی جوان عورتوں کے درد کو محسوس کرو، بھوکے پیٹ ریڑھیاں گھسیٹتے بوڑھے نادار باپ کی مجبوری کو جانو جو اس سے ایسی مشقت کروارہی ہے۔


سنو! تم اگر ان کا درد محسوس کیے بغیر اور ان کی تکالیف کا ادراک کیے بنا ان پر حکمرانی کی خاطر دن رات ایک کرکے لڑ رہے ہو تو تم ان کی خاطر نہیں بلکہ ان کی مجبوری کا تماشہ دیکھنے، ان کا آقا بننے اور انھیں اپنے پیروں میں رینگتی کیڑی بنانے کے لیے لڑ رہے ہو۔
نکلو ذرا اس حصار سے جس میں تمہیں سب اچھا دکھائی دیتا ہے۔ آو ذرا اس غریب عوام کے ساتھ چند لمحے گزارو تاکہ تمہیں ان مجبوروں کی مجبوریوں کا اندازہ ہو سکے۔

اگر ان کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے تو نہ سہی، کبھی راہ چلتے چند ثانیے اپنی کالے شیشوں والی کالی گاڑی روک کر سرراہ بیٹھی اس غریب ماں کی مشکلات کا اندازہ کرنے کی کوشش کرو جو اپنے شیر خوار بچے کو سینے سے لگائے لوگوں کی ہوس بھری نگاہوں کا سامنا کرتی اس کے لیے دو وقت کی روٹی کی بھیک مانگتی ہے۔
آو ذرا جہالت کے اندھیرے میں ڈوبی عوام کے بیچ اس بیچاری عورت کا درد سنو جسے جہالت زدہ شوہر نے فقط اس لیے گھر سے نکالا ہو کہ اس نے بیٹی کیوں جنی۔


جو تکلیف تم نے دیکھی ہی نہیں، اس کا احساس تمہیں کیونکر ہوسکتا ہے اور اس کا حل تم کیونکر ڈھونڈ سکتے ہو؟
کیا تم اس عزت دار مجبور شخص کی تکلیف کا اندازہ کرسکتے ہو جس کی بیوی کے چہرے پر کبھی غیر کی نظر نہیں پڑی لیکن مکان مالک کرایہ نہ دے سکنے پر اس کا سامان باہر پھینکنے کے لیے مشٹنڈے لیے اس کے گھر میں گھس آتا ہے؟
تمہیں اس غریب باپ کی کمزوری کا اندازہ نہیں ہوسکتا ہے جس کا جوان بیٹا قتل ہو جائے اور پھر وہ اپنی زندگی کا کل سرمایا انصاف کے حصول میں خرچنے کے بعد بھی انصاف سے محروم ہو اور اوپر سے جج کے طعنے بھی سنے۔


تمہیں اس مجبور باپ کے درد کا احساس نہیں ہوسکتا جو اپنی بیٹی کی عصمت دری کی ایف آئی آر لکھوانے کے لیے بھی تھانیدار کی منتیں کرتا ہے اور تھانیدار کی نظریں اسی لٹی پٹی بیٹی کے جسم پر ہوتی ہیں۔
سنو تم حکمران نہیں، تم رہبر و لیڈر نہیں، تم اس غریب عوام کے خیر خواہ نہیں بلکہ تم بھوکے بھیڑیے ہو۔ تمہیں غریب عوام کی بھلائی کی خواہش نہیں بلکہ ان کے جسم نوچنے کی بھوک ہے۔


تم غریبوں کے غمگسار نہیں بلکہ غریبوں کے غم کے بیوپاری ہو، تماشائی ہو جسے سسکتے، تڑپتے، بلکتے جسموں کے نظارے سکون دیتے ہیں، تم نفسیاتی مریض ہو جسے دوسروں کا درد قرار دیتا ہے" سسکیاں سن کر نیند آتی ہے اور تڑپتے اجسام دیکھ کر کھانا ہضم ہوتا ہے۔
سنو! یہ غریب مجسم درد ہیں اور درد کا کوئی ہمدرد نہیں ہوتا اور نہ ہی درد کسی کا ہمدرد ہوتا ہے لیکن اگر درد کو قوت گویائی ملے تو ہر درد چیخ چیخ کر اقتدار کے بھوکے تم وحشیوں کو اپنا ذمہ دار قرار دے گا۔


ہاں! تم تماشائی ہو اور یہ عوام!!!!!
 یہ عوام نہ صرف تماشا ہے بلکہ خود اذیتی کی شوقین بھی جس نے تم جیسوں کو اپنا اختیار سونپ رکھا ہے کہ تمہارے ٹائم پاس کا سامان ہو۔ کبھی تم جیسوں کو نشان عبرت نہ بنایا کہ کوئی اور ان کی حرمت کو پامال کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ تم بے فکر رہو، جو جی چاہے کرو، لوٹو کھسوٹو، حقوق غصب کرو، عزتوں کو نیلام کرو، زندگیوں کو سسکاو، مجبوریوں کو کیش کرو، نہ تمہارا کوئی کچھ بگاڑ سکا ہے اور نہ بگاڑ سکے گا کہ جن کی زندگیوں کا تم نے کھیل تماشا بنا رکھا ہے، انھیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا نہیں آتا اور یہ جو تم اقتدار کی رسہ کشی کو عوام کے حقوق کی جنگ کہتے ہو، یہ فقط پبلسٹی سٹنٹ ہے ورنہ یہ تمہاری نورا کشتی ہے۔


یاد رکھو! اقتدار پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا طوق ہے، انگاروں کا بستر ہے، یہ عیاشی نہیں ذمہ داری ہے، یہ بے فکری کا  نہیں بلکہ فکرو الم و اندوہ کا ذریعہ ہے۔ اپنا عقبی برباد کرتے ہوئے تم آج اس دنیا کی مجازی عدالتوں کو اپنے در کی لونڈی بناتے ہوئے اس اقتدار کو ہر جائز و ناجائر طریقے سے اپنی زندگی کو پر تعیش بنانے کے لیے تو استعمال کرلوگے، تمہاری بدولت جن کروڑوں لوگوں کی زندگی جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے، وہ تم سے اپنے حقوق کا سوال تک نہ کرسکیں گے اور تم جو طرح طرح کے وعدے کر کر کے، ان غریبوں کو سبز باغ دکھا کر اپنی عیاشیوں میں یہ سب فراموش کردیتے ہو، یاد رکھو!
 كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ،"
کے مصداق تم سے سوال ضرور ہوگا۔

تمہارا گریبان ان مظلوموں کے ہاتھ میں ضرور آئے گا۔ بس!!!!! منتظر رہو۔
ہاں منتظر رہو! جب حشر برپا ہوگا، میدان حشر میں حقیقی عدالت لگے گی، حقیقی منصف انصاف کرے گا اور
"فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ "
 اور
"ومَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شرًا يَرَهُ"
 کے مصداق انصاف ہوگا، اور پھر اپنے وعدوں کے خلاف نہ کرنے والا حقیقی بادشاہ، اپنے بندوں سے جنت کا وعدہ کرنے والا
 "فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ"
کے مصداق اس دنیا کے خانماں بربادوں کو اپنے وعدے کے مطابق انعام سے نوازے گا اور تمہارے کرتوتوں کے سبب تم پر پکڑ کرے گا اور
 " وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ"
 کے مطابق تمہیں بھی جزا دی جائیگی تو "نار حامیةٌ" کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :