قوم و ملک کی فلاح کے لیے فقط ایک قانون

پیر 21 ستمبر 2020

Imam Saafi

امام صافی

ستر سال سے یہ ملک ترقی پذیر کہلاتا ہے۔ ہر حکومت دعوے کرتی ہے کہ ملک ترقی کی دوڑ میں بھگٹٹ بھاگ رہا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں، یہ ترقی پذیر سے ترقی یافتہ نہیں ہو پارہا۔ جبکہ دوسری جانب المیہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ملک کی عوام کی حالت مسلسل زوال پذیر ہے۔ پہلے ایک باپ کے دس بچے ہوتے تھے، اکیلا باپ مزدوری کرتا اور دس بچوں کے خاندان کی اچھی کفالت کرتا تھا لیکن اب بات دو بچوں تک محدود ہو چکی ہے، ماں باپ دونوں مزدوری کرتے ہیں لیکن ضروریات زندگی میں احتیاجی سے نہیں نکل پاتے۔

تعلیم زوال پذیر، صحت زوال پذیر، قرضے بڑھ رہے ہیں، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، بد امنی بڑھ رہی ہے، ذہنی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں، فحاشی بڑھ رہی ہے، مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے، ظلم و ستم اور حیوانیت بڑھ رہی ہے، غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے، باہمی احترام و محبت مفقود ہوتے جارہے ہیں، ملکی خودمختاری داو پر لگی ہوئی ہے، حکومت اپنی عوام کے لیے اپنی مرضی سے پالیسی نہیں بنا سکتی بلکہ عالمی ساہوکاروں کے نمائندے ہمارے حال اور مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں، اور ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ ہم ترقی کریں گے اور بہت جلد امریکہ و برطانیہ جیسے ممالک کی صف میں شامل ہوں گے۔

(جاری ہے)


اس بدبختی اور المیے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس ترقی پذیر ملک کی اشرافیہ مغربی دنیا سے بہت انسیت رکھتی ہے۔ علاج معالجہ، سیر سپاٹے، رہائشیں، بچوں کی تعلیم، بعد از حکمرانی زندگی، اور اکثر کی تو قبل از حکمرانی زندگی بھی انھی مغربی ممالک میں گزرتی ہے۔ یہ لوگ فقط حکومت کرنے اور پیسے کمانے کے لیے اس بدبخت ملک کا انتخاب کرتے ہیں۔
عام سرمایہ داروں کو تو چھوڑئیے، لیکن اگر ہم ایسے سابقہ حکمرانوں اور اعلی حکومتی اہلکاروں کی فہرست مرتب کریں جو اس ملک میں حکمرانی کرنے کے بعد ملک سے نکل کر یورپ و امریکہ میں مزے کی زندگی گزارتے ہیں تو شاید کئی جلدوں کی کتاب مرتب کرنی پڑے۔

شروع دن سے ہی حکومتی اشرافیہ کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ حکومت میں رہ کر خوب عیاشی کرتے ہیں، بینک بھرتے ہیں، راہیں ہموار کرتے ہیں، بچوں کو باہر سیٹل کرتے ہیں،  اس ملک کے پیسے سے باہر کاروبار جماتے ہیں، اور جیسے ہی حکومت سے تعلق ختم ہوتا ہے، نوکری ختم ہوتی ہے، بوریا بستر سمیٹ کر باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ اپنے وطن تبھی آتے ہیں جب ان کو اپنی زنبیل بھرنے کا کوئی نیا چانس ملتا ہے یا حکومت کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔


کسی اعلی عہدے پر پہنچنے والے یا حکومت کا حصہ بننے والے لوگوں کا اپنے منصب تک پہنچتے ہی اگلا قدم کسی مغربی ملک کی شہریت اور رہائش کا بندوبست ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بچوں کو تعلیم کے نام پر ملک سے باہر بھیجتے ہیں، پھر ان کے لیے وہیں کاروبار جماتے ہیں اور پھر حکومت سے ریٹائرڈ ہو کر، یا فارغ ہو کر بچوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اس خوار غریب ملک کو اس کے خوار و غریب باسیوں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔

اور پھر کوئی نیا موقع پرست اسی روش کو اپناتا یے۔
زیادہ دور مت جائیے۔ موجودہ دور کے تینوں بڑے سیاسی گروہوں کی لیڈرشپ کو دیکھیے۔
بھٹو پاکستان میں حکومت کرتے رہے اور ان کے بچے لندن میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بعد ازاں جب موقع ملا تو بےنظیر پاکستان تشریف لائیں اور وزیراعظم بن گئیں۔
بےنظیر کے بچے لندن میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور آج کل بلاول ملکی سیاست میں ایک بڑی پارٹی کے لیڈر اور مستقبل کا وزیر اعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں۔


نواز شریف پاکستان میں حکومت کرتے رہے لیکن ان کے بچے بھی ملک سے باہر ہیں اور بہت سے کاروبار بھی۔ آج کل وہ خود بھی علاج کے نام پر لندن میں تشریف فرما ہیں۔
عمران خان نے تعلیم لندن میں حاصل کی۔ کرکٹ کی وجہ سے پاکستان آئے لیکن دل وہیں براجمان تھا۔ شادی بھی کی تو ایک گوری سے۔ پھر ہسپتال اور سیاست کی وجہ سے پاکستان میں مصروف ہوئے۔

آج کل پاکستان کے وزیراعظم ہیں لیکن ان کے بچے لندن میں رہتے ہیں اور فی الحال ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ مستقبل میں وہ بھی پاکستان آکر حکمرانی کے خواب دیکھتے ہوں گے اور ابھی سے پلاننگ بھی چل رہی ہوگی۔
خنرل مشرف دونوں ہاتھوں سے پاکستان لوٹتے رہے، ملک میں خانہ جنگی کا الاو سلگاتے رہے، عوام کو قتل کرواتے رہے، جبکہ ان کا بیٹا ان سب حالات سے بےغم اور محفوظ امریکہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔

آج کل جنرل صاحب ملک سے باہر علاج کروا رہے ہیں اور عدالتوں کے بار ہا بلانے پر بھی وطن واپس آنے پر تیار نہیں۔
کئی ایک سابق عسکری منصبدار، اور حتی عسکری قائدین اپنی ملازمت کے دوران ہی اپنے بچوں کو ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں اور پھر اپنے مناصب سے سبکدوش ہوتے ہی وہ بھی اس دیس کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ملک سے باہر تشریف لے جاتے ہیں، وہاں جائیدادیں خریدتے ہیں اور کاروبار جما کر غیرملکیوں کی خدمت کرتے ہیں۔


ایسے ہی بیوروکریسی میں موجود لوگ نوکری کے دوران ہی ملک سے باہر اپنی رہائش کا بندوبست کر لیتے ہیں، بچوں کو تعلیم کے نام پر اسی دوران ملک سے بھگا دیتے ہیں اور بعد ازاں خود بھی فرار ہوجاتے ہیں۔
نتیجتاً یہ خوار دیس اپنی غریب عوام کو لٹی پٹی حالت میں میراث میں مل جاتا ہے تاکہ اگلا موقع پرست اپنی قسمت کھری کر سکے۔
سیاسی نعرہ بازی، سیاسی پوائنٹ سکورنگ، بدھو مقلدین کو گگو بنانے کے سوا حکومتیں یا اہلکار کچھ نہیں کرتے۔

نہ حقیقی معنوں میں تعلیم کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے، نہ ہسپتالوں کو بہتر کرنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں اور نہ ہی امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے دائمی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ سب نام نہاد رہبر و اہلکار لکیر کے فقیر ہیں۔ اپنی باری پر آتے ہیں، لکیر پیٹتے ہیں، اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، ٹائم پورا کرتے ہیں اور نکل بھاگتے ہیں۔


بدقسمتی یہ ہے کہ کسی کو بھی، چاہے وہ سیاسی لیڈر ہو، بیوروکریٹ ہو، جج ہو یا عسکری منصبدار، حقیقی معنوں میں اور خلوص کے ساتھ اس ملک اور عوام کے ساتھ ہمدردی نہیں اور نہ ہی وہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی ایسا عمل کرنا چاہتے ہیں جس سے عوام کا معیار زندگی بلند ہو۔
جس شخص کا علاج یورپ و امریکہ میں ہوتا ہو، بچے تعلیم یورپ و امریکہ میں حاصل کرتے ہوں، سرمایہ کاری کے لیے محفوظ جگہ امریکہ و یورپ ہوں، مستقبل میں رہنا بھی وہیں ہو، اسے کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان کی عوام کے مستقبل کو پرسکون و محفوظ بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرے۔


آئے روز نت نئے قوانین بنانے کے لیے پارلیمان میں ہلڑ بازی ہوتی ہے، اودھم مچتی ہے، دھینگا مشتی کی جاتی ہے، شور شرابہ اور جگت بازی کی جاتی ہے اور پھر قانون پاس ہوجاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی قانون عوامی فلاح کا نہیں ہوتا۔ عرصہ گزرا عوام کی فلاح کے لیے یوں اودھم مچتے نہیں دیکھا۔ لے دے کر چند ہی پارلیمانی ممبران ہیں جو عوام کی خاطر آواز اٹھاتے ہیں لیکن ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔


اور عوام ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اپنے سیاسی لیڈرز کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں چاہے وہ خود انھی کے خلاف کیوں نہ کھڑے ہوں۔
تاحال یہ حال ہے کہ نااہل لوگ بھاری رشوتیں دے کر، تگڑی سفارشیں کروا کر اور بڑی بڑی سازشیں رچا کر سرکاری عہدے حاصل کرتے ہیں، جبکہ اصل حقدار اور مخلص لوگ بیچارے نوکریوں کو ترستے رہ جاتے ہیں۔ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ چور دروازے سے آنے والے لوگ نہ صرف اداروں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں بلکہ اپنی تمام تر انویسٹمنٹ سینکڑوں گنا سود سمیت سمیٹ کر محفوظ زندگی کی خاطر ملک سے باہر دوڑ جاتے ہیں۔

ملک کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہو، ان کی بلا سے۔
میں سمجھتا ہوں کہ قوم و ملک کی فلاح کی خاطر فقط ایک سخت قانون کی ضرورت ہے، فقط ایک سخت قانون۔
"ملک سے باہر رہائش رکھنے والوں اور دوسرے ممالک کہ شہریت رکھنے والوں کو سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔تمام تر وزیر مشیر، ڈائریکٹرز، بیورو کریٹس، جنرلز، عسکری منصبدار، غرض سترھویں گریڈ سے اوپر کے جتنے سرکاری ملازمین اور عہدیدار ہیں، چاہے سول ہیں چاہے عسکری، ان کے لیے چند شرائط لازمی کی جائیں۔


۔ان کے بچوں کی ملک سے باہر تعلیم پر پابندی لگائی جائے
۔ ان کے لیے ملک سے باہر علاج پر پابندی لگائی جائے
۔ان کے لیے ملک سے باہر نوکری یا کاروبار پر پابندی لگائی جائے
۔ان کے لیے کسی بھی دوسرے ملک رہائش پر پابندی لگائی جائے۔
۔دنیا بھر کے ممالک سے ایک معاہدہ کیا جائے کہ پاکستان کا کوئی بھی سرکاری عہدیدار دوران نوکری یا بعد از سبکدوشی اگر کہیں گھومنے پھرنے کے بہانے جاکر وہاں پناہ لینا چاہے تو وہ اسے پاکستان کے حوالے کرنے کے پابند ہوں۔


۔اس کے بعد ایسے لوگ جو اپنے فرائض میں سستی برتیں یا کرپشن کریں، انھیں متعین کردہ سخت سزائیں دی جائیں۔
اس کے بعد یہ ہوگا کہ:
۔ایسے مخلص اور اہل لوگ جو واقعی ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہوں، اہلیت کی بنیاد پر ان عہدوں پر متعین ہوں گے۔ چور اور موقع پفست لوگ اجتناب ہی کریں گے۔
۔کچھ خلوص اور کچھ سزاوں کا خوف، سب لوگ جی جان سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔


۔جب اپنے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہوگا تو اس شعبے سے منسلک لوگ اور دیگر سرکاری عہدیدار تعلیمی شعبے کی اصلاح میں جان لگا دیں گے۔
۔جب اپنے پیاروں کا علاج یہاں کے ہسپتالوں میں ہوگا تو ہر سرکاری عہدیدار ہسپتالوں کی بہتری کے لیے خلوص سے کام کرے گا کہ کہیں ان کی سستی، غیر ذمہ داری اور نااہلی کی قیمت اپنے پیاروں کی جانوں کی صورت میں نہ ادا کرنی پڑجائے۔


۔جب باہر فرار کی راہیں مسدود ہوجائیں گی تو ہر شخص جرم و کرپشن سے اجتناب کرے گا۔
۔جب یہ سمجھ آجائے گی کہ ساری زندگی اسی ملک میں رہنا ہے، بچوں اور دیگر پیاروں کی باقی ماندہ زندگی اسی ملک میں ہے، تو سب وزیر، مشیر، عسکری منصبدار، پولیس اہلکار، حتی وزیر اعظم اور صدر وغیرہ کو ملک کی امن و امان کی حالت پریشان کرے گی۔ جب انھیں احساس ہوگا کہ صورتحال بگڑنے سے، بدامنی و خانہ جنگی کی آگ بھڑکنے سے اپنے پیارے بھی اس آگ میں جلیں گے، تو سب جی جان سے ان حالات کو بہتر کرنے، امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔


۔جب یہ یقین ہوجائے گا کہ بھوک بڑھنے کے اثرات اپنے پیاروں کو بھی متاثر کریں گے تو کوئی بھی ملکی سرمایہ ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
مندرجہ بالا قانون کے بننے کے بعد ہر شخص اپنی ذمہ داری کو بوجھ نہیں، واقعی ذمہ داری اور فرض سمجھ کر نبھانا شروع کر دے گا اور مثبت تبدیلی مہینوں میں نہیں، ہفتوں میں دکھائی دینے لگے گی۔
تجربہ شرط ہے۔
اتنے قوانین بنائے جاتے ہیں، اتنے تجربے کیے جاتے ہیں، ایک تجربہ یہ کر کے دیکھا جائے، بہت جلد حقیقی رہبران کو ترستی قوم کو حقیقی رہبران میسر آجائیں گے اور 72 سالوں سے برائے نام ترقی پذیر ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔انشاءاللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :