سراب انصاف‎

منگل 8 ستمبر 2020

Imam Saafi

امام صافی

کئی سال چلنے والے مقدمے کے فیصلے کے بعد جج نے بزرگ مدعی کو جیتنے پر مبارکباد دی تو بزرگ نے جج کو دُعا دی کہ "اللہ تُجھے ترقی دے اور تھانیدار بنائے"..
جج نے بزرگ کی سادگی پر مُسکر کر کہا "جج تھانیدار سے بڑا ھوتا ھے"..
بزرگ بولے "نہیں بیٹا ، تھانیدار بڑا ھوتا ھے"..
جج نے پوچھا "کیسے؟"..
بزرگ بولے "آپ کو کیس ختم کرنے میں اتنے سال لگ گئے لیکن تھانیدار شروع سے بول رھا تھا کہ 5000 دے دو تو میں یہیں مُعاملہ رفع دفع کر دیتا ھوں"..
مذاق برطرف، لیکن یہ ہمارے نظام انصاف کا تاریک رخ ہے۔


میں کسی ایسے شخص کا حامی نہیں جس پر کسی کا حق باقی ہو، چہ جائیکہ وہ کسی کا قاتل ہو۔
ایک کمپین چل رہی ہے، ایک غریب کانسٹیبل کو گاڑی تلے کچلنے والے صاحب حیثیت کے خلاف۔

(جاری ہے)

آئیے ہم بھی اس میں حصہ ڈالتے ہیں کہ ایک غریب کانسٹیبل کو اپنی گاڑی تلے کچلنے والے مجید اچکزئی کو پھانسی ہو۔ مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا اور گلی کوچوں میں آواز اٹھائیں کہ مجید اچکزئی کو پھانسی دیں۔

(اگرچہ پھانسی قتل عمد کی سزا ہوسکتی ہے، حادثے کی قطعاً نہیں۔)
آئیے شور مچائیں، جلوس نکالیں، توڑ پھوڑ کریں، جلاو گھیراو کریں، لیکن اس سے پہلے کچھ دیر چپ رہ کر اپنے حالات کا جائزہ لیں، اس سسٹم پر غور کریں، کیا ایک شخص کی پھانسی سے مقتول کے یتیم بچوں کو انصاف مل جائے گا؟ ان کا کچھ بھلا ہو جائے گا؟ ان کی زندگی سدھر جائے گی؟
کیا اس سسٹم میں اتنی جان ہے کہ وہ غریب کانسٹیبل کے یتیموں کی کفالت کرسکے؟
ہرگز نہیں، بلکہ مجید اچکزئی مرے یا جیے، ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑنا۔

اس لیے پھر بہتر تو وہ طریقہ ہوا جو تھانیدار نے بتلایا، نہ کہ نظام انصاف کو وہ طویل صبر آزما راستہ کہ جس میں نتیجے تک پہنچنے سے قبل انصاف رستے میں سسک سسک کر مرچکا ہوتا ہے اور انصاف کے منتظر مظلومین کی جائیداد پوری کھاچکا ہوتا ہے اور جان آدھی۔ انصاف کی تلاش میں عدالتوں میں جوتیاں گھسیٹ گھسیٹ کر مظلوم نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں لیکن نتیجہ ضرب صفر ہوتا ہے۔


ایسی کمپینوں کے نتیجے میں کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہونا ہوتا تو نقیب اللہ محسود کے لیے تو پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا، ایک پوری تحریک چلی جو تاحال چل رہی ہے، لیکن مبینہ طور پر سینکڑوں افراد کا قاتل راو انوار کئی دن مفرور رہنے کے بعد پورے پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوتا ہے اور پھر فرد جرم عائد ہونے کے بعد بھی سرکاری مراعات سے لطف اٹھاتا ہے، کوئی سزا نہیں ہوتی۔


سال پہلے ایک ذہنی مریض صلاح الدین کا واقعہ ہوا۔ کمپین چلی، پورا ملک ہل گیا، لیکن نتیجہ؟ ضرب صفر۔۔۔۔۔۔۔
ساہیوال کا ناقابل فراموش سانحہ بھی لوگ فراموش کر چکے ہیں۔ دن دیہاڑے معصوم بچوں کے سامنے والدین کو گولیاں ماری گئیں۔ ویڈیوز موجود تھیں، لیکن کیا ملوث افراد کو سزا ملی؟ کیا والدین کے قتل کے عینی شاہد معصوم بچے انصاف پاسکے؟
اسلام آباد میں ایک امریکی سفارتی اہلکار کرنل جوزف نے سرخ بتی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین طلبا کو کچلا۔

کیا ہمارا نظام اس غیر ملکی کو سزا دے سکا؟ کیا زخمیوں اور مقتول کو انصاف مل سکا؟
لاہور میں ایک پاکستانی کو قتل کرنے والے امریکی جاسوس کو کیسے رہا کر دیا گیا، کیا دنیا اس سے واقف نہیں؟ کیا عدلیہ ایک مقتول پاکستانی کے ساتھ عدل کر سکی؟ کیا ہماری طاقتور عدالتیں ایک غیر ملکی جاسوس کو سزا دے سکیں؟
بہن کی عزت کی خاطر ایک وڈیرہ زاد شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں قتل ہوجانے والے شاہ زیب خان کی والدہ کو بیٹے کو انصاف ملنے سے زیادہ جوان بچیوں کی حفاظت کی فکر تھی۔

اور پھر قاتل شاہ رخ جتوئی سرخ رو ہو کر جیل سے وکٹری کے نشان بناتا ہمارے نظام انصاف پر ہنستا رہا ہوگیا۔
ہزاروں کہانیاں ہیں جو نظام انصاف کے کھوکھلے پن پر دلیل ہیں۔ دس ہزار روپے کا کیس دس سال چلتا ہے، چند مرلے زمین کے لیے دو نسلیں خاک ہوجاتی ہیں لیکن فیصلہ نہیں ہوپاتا، شراب شہد ثابت ہوجاتا ہے اور نسوار چرس بنا دی جاتی ہے۔ عوام عدالتوں میں جا کر انصاف پانے سے ڈرتے ہیں۔

اور جو ڈرتے نہیں، وہ عدالتوں سے رجوع کرنے کی بجائے خود انصاف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
چند افراد کے خلاف کمپین چلانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ حل ہوگا اس نظام کو بدلنے سے، اور اس کا آغاز ہوگا اپنی ذات سے۔ نظام بدلتا ہے قانون بنانے سے، اور قانون بناتے ہیں ہمارے وہ نمائندے جنھیں ہم ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔ لیکن افسوس!!! جنھیں ھم اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، وہ یومیہ چار کروڑ میں پڑنے والے اسمبلی اجلاسوں میں فقط فحش لطائف سناتے ہیں اور ہم ان کا گریبان تک نہیں پکڑ سکتے۔


آج ہی خود سے وعدہ کریں کہ آئندہ نمائندہ اسے بنائیں گے جو ہمارے درمیان سے ہو، جو حق پرست بھی ہو اور حق گو بھی، جسے خدا کا خوف بھی دامن گیر ہو اور اپنی عزت کا بھی خیال ہو، اور سب سے بڑھ کر، کہ جس کا گریبان ہماری دسترس میں ہو۔ جس سے ہم اپنے حقوق کی بابت بات کر سکیں، جس سے اس کی نا اہلی پر سوال کر سکیں۔
اور اگر کمپین ہی چلانی ہے تو کسی ایک فرد کو سزا دلوانے کے لیے نہ چلائیں، بلکہ اس نظام کی تبدیلی کے لیے چلائیں تاکہ آئندہ کسی مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے کمپین چلانے کی ضرورت نہ پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :