
عام آدمی کے دل کی آواز
ہفتہ 5 ستمبر 2020

امام صافی
بات فقط اتنی ہے کہ جب میں صبح سویرے اٹھتا ہوں تو میرے پیٹ میں کوئی لقمہ جانے سے پہلے منہ دھونے کا صابن، سر دھونے کا شیمپو اور دانت صاف کرنے کا برش اور کریم میری جیب سے حکومت کا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ناشتہ کرتا ہوں تو آٹا اور گھی ایک بار پھر مجھ سے حکومت کا ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ بچوں کو سکول لے کر جاتا ہوں تو بائیک کا پٹرول حکومت کا حصہ وصول کرتا ہے۔ سکول کی فیسیں، بچوں کی کتابیں میری جیب کترتی ہوئی حکومت کا حصہ وصولتی ہیں جبکہ تعلیم کے نام پر میرے بچوں پر فقط ذہنی دباو مسلط کیا جاتا ہے جس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
(جاری ہے)
ہم لکیر کے فقیر لارڈ میکالے نامی گورے کا تیار کردہ نظام تعلیم دوسو سال سے چلائے جارہے ہیں جس کی افادیت فقط اتنی ہے کہ وہ میرے بچوں کو بڑی بڑی کمپنیوں کا غلام بناسکے اور حکومت اصلاح کی طرف جاتی ہی نہیں۔
کسی ہسپتال جاتا ہوں تو میرے ٹیکس سے تنخواہ پانے والے ڈاکٹر مجھے بھکاری سمجھ کر تضحیک والا سلوک کرتے ہیں، میری جان بچانے والے مسیحا دواساز کمپنیوں کے ہاتھ بک کر مجھے ان کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور وہ اپنا منافع حکومت کے ٹیکس سمیت میری جیب سے ایسے وصول کرتے ہیں کہ اگر میں بھوکا بھی مر رہا ہوں تو بھی ان کو پیسے ادا کرتا ہوں، جبکہ حکومت کو قطعی پرواہ نہیں کہ میں مرتا ہوں یا جیتا ہوں۔ کسی بھی سرکاری محکمے میں جاتا ہوں تو وہاں مجھے میرے ٹیکس پر پلنے والے ان گنت بادشاہ دکھائی دیتے ہیں جو میری مجبوری کو اپنے گھریلو غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پولیس، تھانہ کچہری، وکیل اور ججوں سے تو اللہ نہ کرے مجھے کام پڑے۔ یہ تو لائسنس یافتہ غنڈے ہیں جو حکومتی سرپرستی میں نہ صرف میری جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہیں بلکہ میرے ٹیکس سے بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرنے والے مجھے تختہ مشق بناکر ذلیل کرتے ہیں۔ گھر آتا ہوں تو گیس و بجلی کے بےتحاشا بل میری جیب کو جھاڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔
چلیں جناب یہ سب ہمیں قبول، ہماری حکومت ہے، ہم اپنی محنت کی کمائی، اپنے ٹیکس سے اس کو مستحکم کرنے کے لیے ذمہ دار و مسئول ہیں اور ھم اس کے لیے راضی بہ رضا ہیں۔ ھم نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
لیکن جناب ایک سوال ہے۔۔۔۔
مجھے زندگی کی سہولیات بہم پہنچانا، تعلیم اور صحت کی سہولیات دینا، پرامن زندگی دینا، میری جان مال اور عزت (بشمول عزت نفس) کی حفاظت کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
حکومت کو ٹیکس دینے سے ہرگز انکار نہیں لیکن یہ ٹیکس دینے کے لیے مجھے پیسے چاہئیں، پیسے کمانے کے لیے محنت کرنے کو تیار ہوں، اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت کرنے کو تیار ہوں، جان لگانے کو تیار ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔۔ کاروبار، نوکری یا مزدوری کے مواقع فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
اگر حکومت صبح دوپہر شام مجھے ٹیکس دینے کی ترغیب دیتی کبھی اس طرف توجہ کرے، ہمیں روزگار کے مواقع دے تو چھالے پڑیں زباں میں جو ہم زبان کھولیں۔ ہمارے پاس ٹیکس دینے کے باوجود زندگی بچتی ہے جینے کو، ھم وہ جی لیں گے اور کچھ نہ بولیں گے۔
لیکن اگر آپ کا ہاتھ بھی ہماری جیب میں رہے اور آپ اپنی ذمہ داری بھی نہ نبھائیں، اور پھر ہمیں دو چار الفاظ بولنے کی بھی اجازت نہیں تو یقینا" ہم بدترین دور میں جی رہے ہیں۔
لیکن چونکہ ہمیں اپنی زندگیوں سے پیار ہے لھذا آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
امام صافی کے کالمز
-
اب میں گھبرائوں کہ نہ گھبرائوں؟
بدھ 14 اکتوبر 2020
-
دماغ کی دہی
بدھ 30 ستمبر 2020
-
قوم و ملک کی فلاح کے لیے فقط ایک قانون
پیر 21 ستمبر 2020
-
سراب انصاف
منگل 8 ستمبر 2020
-
عام آدمی کے دل کی آواز
ہفتہ 5 ستمبر 2020
-
اگر تم درد رکھتے ہو
منگل 1 ستمبر 2020
-
بیچارہ دیس
اتوار 30 اگست 2020
امام صافی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.