بیچارہ دیس

اتوار 30 اگست 2020

Imam Saafi

امام صافی

ایک پشتو محاورہ ہے:
" زما لالے یے مڑ کڑو
پہ لارہ، یا پہ چاڑہ"
جس کا مفہوم ہے کہ:
"اصل معاملہ یہ ہے کہ میرے پیارے کو مارڈالا۔ درانتی سے مارا، یا چھری سے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔"
جب سے ہوش سنبھالا ہے، بس یہی سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو لوٹ کر کھا گئے۔ روز کی بڑھتی غربت، مہنگائی اور بےروزگاری سے یہ تو ہمیں بھی نظر آرہا کہ ملک کو واقعی لوٹا جارہا ہے، لیکن آج تک لوٹنے والوں کا نہ صحیح سے تعین ہوسکا اور نہ ہی صحیح معنوں میں کسی لٹیرے کو پکڑ کر لوٹ کا مال اس کے حلق سے نکلوایا جاسکا۔


ملک لوٹنے کے سلسلے میں دو طبقوں کا ذکر کیا جاتا ہے، سیاستدان اور جرنیل۔ تاحال تو جس قدر بھی کرپشن کے خلاف کاروائی ہوئی ہے، اس میں سیاستدان ہی زیر عتاب رہے ہیں، موخرالذکر طبقے کا نام لینے کی بھی کسی میں جرات نہیں۔

(جاری ہے)


لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک صرف مذکورہ بالا طبقوں نے نہیں لوٹا، بلکہ اس لوٹ مار میں حتی الوسع ہر شخص نے حصہ لیا ہے، چاہے وہ جج ہوں، بیوروکریٹ ہوں یا پھر نچلے درجے کے کلرک۔

یہ لوٹ مار صرف مال و دولت کی نہیں ہوتی، بلکہ مراعات، نوکریوں، اختیارات کے علاوہ صرف ذاتی انا اور بغض کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانا، اس ملک کی ترقی اور بہتری میں رکاوٹ بھی اسی لوٹ مار کا حصہ ہے۔ یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے لیکن ہمیں آواز اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات میڈیا کے بہکاوے میں ہم بھی اس عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔


کچھ عرصہ قبل ایک ڈاکٹر صاحب کے بڑے چرچے تھے، ڈاکٹر سعید اختر۔ دسیوں ڈگریاں حاصل کرنے والے ڈاکٹر صاحب ٹیکساس میں پندرہ سال تک ایک میڈیکل یونیورسٹی کے یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ بیسیوں ایوارڈز، اعزازات، عزت اور شہرت بمعہ دولت کے ڈاکٹر سعید اختر کا منزل نہیں تھیں۔ وہ اس سے کچھ بڑا کرنا چاہتے تھے لھذا اپنی پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر، اپنا ذاتی جہاز بیچ کر پاکستان تشریف لائے اور اسلام آباد میں ایک ورلڈکلاس کڈنی سینٹر کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگے۔

اسی بھاگ دوڑ میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف  کو ان کی خبر ملی تو انھوں نے دو شرائط پر ہر طرح سے ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
 پہلی شرط یہ تھی کہ ہسپتال لاہور میں بنایا جائے۔
دوسری شرط یہ تھی کہ ہسپتال میں گردوں کے ساتھ جگر  کے امراض کے علاج کی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔
شرائط کی منظوری کے بعد شہباز شریف نے نہ صرف انھیں ساٹھ ایکڑ زمین فراہم کی بلکہ ادارے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پہلے تین سال کے تمام اخراجات بھی اپنے ذمے لیے۔


ہسپتال کی تعمیر کے لیے باقاعدہ ایکٹ پاس کیا گیا اور اربوں روپے فنڈز مہیا کردئیے گئے۔
اس موقع پر ایک بین الاقوامی کڈنی اینڈ لیور ہسپتال چلانے کے لئے بین الاقوامی تجربے کے حامل ڈاکٹرز کی ضرورت محسوس ہوئی تو ڈاکٹر سعید اختر نے پوری دنیا سے اپنے تعلقات کے ذریعے ایسے ڈاکٹرز کو پاکستان آنے کی ترغیب دی جو پاکستان سے باہر کروڑوں روپے کماتے تھے۔


تین سال کی انتھک محنت اور 20 ارب روپے لاگت کے بعد ایک ایسے ہسپتال کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا جو سالانہ 150 جگر اور 200 گردوں کی پیوندکاری کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس ہسپتال سے گردوں اور جگر کی پیوند کاری کے اخراجات، جو پہلے 60 لاکھ سے 1 کروڑ تک ہوتے تھے، گھٹ کر 20 سے 25 لاکھ پر آگئے۔ یکم جون 2018 کو ہسپتال میں دو کڈنی ٹرانسپلانٹ کر کے ہسپتال کے عملی کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔


لیکن ہسپتال کو فعال کرنے کی تگ و دو کے دوران ہی دخل در نامعقولات کا وہ باب شروع ہوا کہ جس نے ایشیا کے اس سب سے بڑے لیور اینڈ کڈنی انسٹیٹیوٹ کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ 24 مارچ 2018 کو "صادق اور امین" فیم چیف جسٹس صاحب نے ہسپتال میں باہر سے کروڑوں روپوں کی تنخواہیں چھوڑ کر نوکری کرنے والے ڈاکٹر صاحبان کی "بہت زیادہ" تنخواہوں پر سوموٹو ایکشن لے لیا۔

یاد رہے کہ اس ہسپتال کے یورپ و امریکہ سے نوکریاں چھوڑ کر آنے والے ڈاکٹرز 8 سے 12 لاکھ روپے تنخواہیں لیتے تھے۔ بعد ازاں چند مخصوص ٹی وی چینلز پر فقط ن لیگ کے بغض میں اس ہسپتال، ڈاکٹر سعید اور دیگر ڈاکٹرز کی کردار کشی کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ پی کے ایل آئی کی ٹیم پاکستان آنے پر پشیمان ہوگئی۔ چیف جسٹس صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم ان لوگوں کو (جو اپنی پرتعیش زندگی چھوڑ کر پاکستان آئے تھے) بھاگنے نہیں دیں گے۔

انھی کے حکم پر ڈاکٹرز کے نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈال دئیے گئے۔ ان کا میڈیا ٹرائل ہونے لگا، عدالتوں میں پیشیاں ہونے لگیں اور ہسپتال کا کام رکوا کر آڈٹ شروع کروا دیا گیا۔ ڈاکٹر سعید اختر کی چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ایک میٹنگ میں چیف صاحب نے طنز کیا تھا کہ ان کا بھائی بھی جگر کا ڈاکٹر ہے لیکن اسے تو فقط ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، آپ کو اتنی زیادہ کیوں؟ (سوچیے، کیسی بچگانہ اور بغض بھری سوچ ہے)
اس دھینگا مشتی میں 8 ماہ تک ہسپتال کا کام روکے رکھا گیا جس سے ہسپتال کی لاگت 6 ارب روپے بڑھ گئی۔

اس کردار کشی مہم اور عدالتی کیسز سے پوری دنیا میں پی کے ایل آئی اور ڈاکٹر سعید کی ساکھ بہت متاثر ہوئے۔ ہارورڈ کی جانب سے ایک لاکھ ڈالر کی امداد منسوخ ہوگئی۔ دنیا کے کئی دیگر بڑے اداروں کی طرف سے پی کے ایل آئی کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے، سب موخر کردئیے گئے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ثاقب نثار کے احکامات منسوخ کردئیے اور ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا۔

ڈاکٹر سعید آنکھوں میں آنسو لیے اپنے ہی خواب سے دستبردار ہو کر ملک کو خیرباد کہہ گئے۔ ہسپتال نئی حکومت کے حوالے کیا گیا جس کے زیر انتظام اس وقت ہسپتال تقریباً غیر فعال ہے۔ ڈاکٹر سعید کی ٹیم کے بعد فقط چند ایک گردے کے آپریشنز کیے گئے ہیں جبکہ جگر کا کوئی آپریشن نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کا خواب فقط اس باعث خواب بن کر رہ گیا کیونکہ ایک چیف جسٹس کو اس بین الاقوامی معیار کے ادارے کے ڈاکٹروں کی تنخواہ سے مسئلہ تھا، اور ساتھ ہی ساتھ ن لیگ کے ہر کارنامے کو کرپشن ثابت کرنے کا مشن بھی۔

اور اس مشن کو پورا کرنے میں عوام نے ثاقب نثار کا خوب ساتھ دیا، ڈاکٹر سعید، ان کی ٹیم اور پی کے ایل آئی میں کرپشن کا خوب ڈھنڈورہ پیٹا۔
لیکن کیا ڈاکٹر سعید اور ان کی ٹیم کی تنخواہیں پاکستان میں سب سے زیادہ تھیں؟
کیا کسی اور کو ان سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتی تھیں جو پی کے ایل آئی کی ٹیم کو ہدف بنایا گیا؟
ایک انتہائی غیر ضروری کام، یعنی کرکٹ کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کی تنخواہ مبلغ 32 لاکھ سے سب واقف ہیں جو اس حکومت نے مقرر کی۔

صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں اور مراعات بھی ہوش اڑا دیتی ہیں۔ قومی اسمبلی کا ایک اجلاس چار کروڑ روپے کا پڑتا ہے جس میں چند فحش لطائف اور چند گالیوں اور بڑھکوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک ایک وزیر سالانا کروڑوں میں پڑتا ہے اور ان کی تمام فعالیت فقط تختیوں پر تختیاں لگانے تک محدود ہے۔ صدر پاکستان اور صوبوں کے گورنرز ماہانہ کروڑوں میں پڑتے ہیں جن کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں لیکن اس پر کوئی آواز نہیں اٹھتی، کوئی سوموٹو نہیں لیا جاتا۔


ابھی حال ہی میں قرضوں میں ڈوبے ملک کے قومی بینک "سٹیٹ بینک آف پاکستان" کی ڈپٹی گورنر کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات منظرعام پر آئیں۔ ذرا ملاحظہ کریں:
نام : سیما کامل
رتبہ: ڈپٹی گورنر، سٹیٹ بینک آف پاکستان
ماہانہ تنخواہ: 18 لاکھ 60 ہزار روپے
گھر کا کرایہ: 2 لاکھ 50 ہزار
ماہانہ پٹرول: 600 لیٹر × 105
63000 روپے
علاوہ ازیں 13 لاکھ کی کلب ممبر شپ، اہل و عیال سمیت فری میڈیکل، 1800 سی سی کار، 1 لاکھ ستر ہزار کا موبائل اور بین الاقوامی سفر کی سہولیات بھی میسر ہوں گی۔


ڈپٹی گورنر کی تنخواہ میں سالانہ دس فیصد کا اضافہ بھی ہوگا۔
دیگر مراعات چھوڑ کر صرف ماہانہ اخراجات کا حساب لگائیں تو یہ 21 لاکھ 73 ہزار نقد بنتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں کہ جہاں ایک عام مزدور کی تنخواہ فقط 15 ہزار مقرر ہے، وہاں ایک غیر ضروری منصب کے لیے اتنی زیادہ تنخواہ کیا کرپشن اور ظلم نہیں؟ کیا یہ فضول خرچی نہیں؟
ڈاکٹر سعید اختر اور ان کی ٹیم جیسے قابل اور فائدہ مند لوگوں کو چند لاکھ روپوں کی تنخواہوں پر چور ثابت کر کے ملک سے بھگا دیا گیا، لیکن 21 لاکھ سے زائد تنخواہ پر کوئی سوموٹو نہیں، کوئی میڈیا ٹرائل نہیں۔

۔۔۔۔۔
آئے روز کسی نہ کسی ادارے سے غریب مزدور نکالے جارہے ہیں، یا پھر نئی بھرتیاں کینسل کی جا رہی ہیں جس کے باعث بےروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کے اس ایک غیر ضروری منصب سے لگ بھگ ڈیڑھ سو عام پاکستانیوں کو تنخواہ دی جاسکتی ہے، لیکن نہ کسی کو غریب کی فکر ہے، نہ اس غریب ملک کی۔ کسی کو ناجائز منافع کمانا ہے اور کسی کو اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا ہے، کسی کو سیاسی انتقام اور کسی کو انا کی تسکین کی خاطر ایسے الٹے سیدھے اقدامات کرنے ہیں کہ جن کا ازالہ بالآخر اس غریب دیس کی غریب عوام نے کرنا ہے۔

صاحب اختیار و اقتدار اور صاحب ثروت اس ماحول میں خوب عیش میں ہے۔ رگبی کی بال کی طرح اقتدار ایک دوسرے کو پاس کرتے ہیں، ایک دوسرے سے چھینتے ہیں، پھرتیاں دکھاتے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ایک دوسرے کو گراتے ہیں اور آخرکار مل جل کر انعانات و امتیازات وصول کر کے مزے کرتے ہیں، جبکہ عوام کی قسمت میں فقط تالیاں اور نعرے بازی آتی ہے، جبکہ ملک کا بیڑہ غرق ہوتا جاتا ہے۔ اور بالآخر کسی حساس ترین عام پاکستانی کو فقط اتنی ہی سمجھ آتی ہے کہ:
"زما لالے یے مڑ کڑو
پہ لارہ یا پہ چاڑہ"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :