دوران لاک ڈاؤن ہوم اسکول کی ضرورت

ہفتہ 11 اپریل 2020

Imtiaz Ahmad Jam

امتیاز احمد جام

بچے قوم کا سرمایہ ہیں اور ان کی درست تعلیم و تربیت ہی کسی قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہے. کہتے ہیں کہ کسی بھی بچے کی ابتدائی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہے اور بچہ جو ماں کی گود سے سیکھتا ہے وہ اس کی بنیاد میں بس جاتا ہے. ماں کی بہترین تربیت ہی بچے کو معاشرے کا مفیدشہری بنا سکتی ہے اور اسے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے.  ماں بچے کو بولنا, چلنا, اٹھنا, بیٹھنا اور اس طرح کے کئی آداب زندگی سکھاتی ہے.

ماں کی تربیت کے ساتھ ساتھ بچے کے گھر کاماحول بھی اس کی شخصیت پہ کافی اثر انداز ہوتا ہے. اگر ماں تعلیم یافتہ, سگھڑ اور تمیزدار ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو اپنے جیسا بنائے گی.

(جاری ہے)

اسی طرح گھر کا ماحول اور گھر کے دوسرے ممبران بھی بچے کی اچھی و بری تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. اگر گھر کا ماحول ٹھیک نہ ہو تو بچے کی تعلیم و تربیت,  عادات و اطوار اور اس کے مجموعی رویہ جات پر کافی برااثر پڑتا ہے.

اسی طرح سکول و مدرسہ وغیرہ بچے کو دینی و دنیاوی تعلیم دیتے ہیں. بچے کو دنیاوی آداب زندگی سکھانے, معاشرے کا مفید شہری بنانے اور ایک کامیاب پروفیشنل بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں.  گویا کسی بھی بچے کے بہتر مستقبل کیلئے ماں کی تربیت اور گھر کے اچھے ماحول کے ساتھ ساتھ اچھے سکول و مدرسہ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے. اسی لیے ہمیشہ اپنے بچوں کےلیے اچھے ماحول کا انتخاب کریں.

اگر بچے کی ماں یا گھر کے دیگر افراد میں کوئی کمی کوتاہی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں. ہمیشہ اپنے بچوں کےلیے اچھے سکول یا مدرسہ کا انتخاب کریں جہاں بچوں کو نہ صرف بہتر تعلیم دی جاتی ہو بلکہ ان کی کردار سازی کےلیے بھی خاطر خواہ اقدامات کیے جاتے ہوں. اسی صورت میں ہی ہم اپنے بچے کا مستقبل بہتر اور اسے معاشرے کا مفید شہری بنا سکتے ہیں.


اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف, چھوٹی کلاسز کے بچے اپنے امتحانات سے فارغ ہوئے ہی تھے اور ابھی نئی کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا کہ کورونا وائرس نامی عفریت نے پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مجبوراً حکومت پاکستان کو اپنے تمام تعلیمی ادارہ جات چاہے سرکاری ہوں یا غیر سرکاری بند کرنا پڑے. یہ ایسے وقت میں ہوا جب بچوں کی اکثریت اپنے نئے کورسز کے مندرجات سے ابھی نابلد تھی.

بچوں کو گھر بیٹھنا پڑا اور وبا کے زیادہ پھیل جانے کے خطرے کے پیش نظر تعطیلات کا دورانیہ 31 مئی تک بڑھا دیا گیا. کئی بڑی کلاسز کے امتحانات یا تو جاری تھے یا قریب تھے انہیں بھی منسوخ کردیا گیا. والدین کا پہلے خیال تھا کہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں آنے والے اس حرج کو کور کرنے کےلیے ٹیوشنز کا سہارا لیا جائے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ چیز بھی ممکن نہیں رہی.

اب صورتحال یہ ہے کہ بچے اپنے اپنے گھروں میں بغیر کسی ڈائریکشن کے موجود ہیں کیونکہ سکولوں کی طرف سے ہوم ورک نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی سکولوں کی اکثریت کی طرف سے کوئی مناسب ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے کہ وہ دوران تعطیلات اپنی تعلیمی ضروریات کو کیسے پورا کریں.
کچھ سکولوں نے اپنے طلبہ و طالبات کےلیے آن لائن لیکچرز شروع کیے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن چونکہ ہر فرد تک انٹرنیٹ کی رسائی ممکن نہیں اس لیے یہ سہولت بھی ناکافی ہے.

اس جگہ ہم محکمہ تعلیم کے اس اقدام کی تعریف کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مختلف کیبل نیٹ ورکس پہ مختلف چینلز مختص کرکے بذریعہ سلائیڈز لیکچرز شروع کیے ہیں. گو حکومت اور محکمہ تعلیم کا یہ فیصلہ انتہائی ویژنری ہے اور اس سے کافی طلبہ و طالبات مستفید ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی میں اسے ناکافی کہوں گا کیونکہ کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے تعلیمی سہولیات شہروں میں تو پہنچائی جا سکتی ہیں لیکن دیہات اور دوردراز علاقوں تک انکی رسائی ناممکن ہے.


ایسی صورتحال میں بچوں کے والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کےلیے گھر میں ہی تعلیمی سہولیات کا بندوبست کریں. گھر میں موجود پڑھے لکھے افراد اپنے بچوں کو نئے کورسز کو سمجھنے میں مدد دیں. جن بچوں کے ایگزامز ملتوی ہوئے ہیں تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ انہیں تعلیمی سرگرمیوں سے بالکل بھی دور نہ ہونے دیں کیونکہ اگر بچے کھیل کود یا دوسری سرگرمیوں میں پڑ گئے تو ان کی ایگزامز کےلیے کی گئی تیاریاں رائیگاں جائیں گی.

اس مقصد کےلیے آپ اپنے گھر کے ایک کمرے یا ڈرائنگ روم کو ہوم سکول کا درجہ دے دیں. اور اس کمرے کا ماحول سکول یا کالج جیسا بنا دیں. اس کےلیے ضروری نہیں کہ آپ کے بچے زیادہ ہوں. ایک یا دو بچوں کےلیے بھی ایسا کمرہ مختص کیا جاسکتا ہے. اپنے ارد گرد ہمسایوں یا رشتہ داروں کے بچوں کو اس مقِصد کےلیے ہرگز نہ بلائیں کیونکہ کورونا وائرس سے بچنے کےلیے سوشل ڈسٹانسنگ بہت ضروری ہے.

اپنے گھر میں موجود کوئی بھی چیز مثلاً کولکڑی کا بورڈ وغیرہ یا اس قسم کی کوئی اور چیز جو پڑھائی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہو اس کو استعمال کریں. بچوں کا ایک ٹائم ٹیبل بنائیں کہ انہوں نے کتنے بجے اٹھنا ہے, ناشتہ کرنا,  سکول کا آغاز, بریک ٹائم,  چھٹی,  کھیل اور سونے کا وقت سب مقرر کریں. سکول میں بچوں کی کیا سرگرمیاں ہونگی یہ بھی طے شدہ ہوں.

ان سب باتوں کا مقصد بچوں کی روٹین بنانا ہے تاکہ وہ نظم وضبط جو سکول سے سیکھتے ہیں وہ اپنے اندر قائم رکھ سکیں. ہوم اسکول کی وجہ سے بچوں کے اندر نظم و ضبط اور پڑھائی کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا اور ان کی ڈیلی روٹین جو اسکول میں بنی ہوئی ہے وہ خراب نہیں ہوگی. بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگا اور وہ تعلیم حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا اہم جزو بنا لیں گے.  اگر ایسا نہ کیا گیا تو نئی کلاسز کی ابتدا کے بعد یہ جو وقفہ آیا ہے آپکے بچوں کی نفسیات پہ برا اثر ڈالے گا وہ اپنی روزمرہ تعلیمی مصروفیات کو بھول کر کھیل کود اور دوسری سرگرمیوں میں مصروف رہیں گے.

اور جب دوبارہ بعد از تعطیلات کلاسز کا آغاز کیا جائیگا تو آپکے بچوں کو اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :