سنتھیا رچی اور پاکستانی سیاست

پیر 8 جون 2020

Imtiaz Ahmad Jam

امتیاز احمد جام

پاکستان کی سیاست نے جہاں اس ملک کو اچھے اور عظیم لیڈران عطا کیے اور ملک کی تعمیر وترقی میں کلیدی کردار ادا کیا وہاں اسی سیاست کی رگوں میں داخل کرپشن, بدعنوانی اور بے ایمانی کے زہر نے ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر بہت نقصان پہنچایا. اس سیاست نے ہمیں ایسے لیڈران دیے جنہوں نے ملک کے امیج کو بین الاقوامی طور پر بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے باسیوں کو صحیح معنوں میں ان کا حق دلانے کی بھر پور کوشش کی اور اسی سیاست نے ہمیں موقع پرست اور کرپٹ حکمران بھی دیے جنہوں نے نہ صرف کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعے ملک لوٹا, اس کی جڑوں کو کھوکھلا کیا بلکہ ملکی مفادات کے منافی بھی کئی اقدامات کیے اور ان اقدامات سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا.

(جاری ہے)

یوں تو ملکی سیاسی تاریخ شاندارہونے کے ساتھ ساتھ بھیانک اور خوفناک ہے اور اس پہ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن چونکہ ہمارا موضوع پاکستان کی سیاست میں اٹھنے والا حالیہ اسکینڈل ہے جس نے اس بےرحم اور بھیانک سیاست کے منہ سے ایک دفعہ پھر نقاب اتار دیا ہے. جی ہاں ہم بات کررہے ہیں امریکن بلاگر سنتھیا رچی کے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت پر لگائے گئے بھیانک الزامات کی.


اس اسکینڈل پہ بات کرنے سے پہلے پاکستان کے سیاسی اسکینڈلز کی تاریخ پہ تھوڑی نظر دوڑا لیتے ہیں. پاکستان کی بےرحم اور سازشوں سے بھرپور گندی سیاست کا آغاز ویسے تو پاکستان بننے سے پہلے ہو چکا تھا لیکن اس غلاظت کی باقاعدہ آغاز نوازشریف کی پارٹی کی طرف سے ہوا جب انہوں نے مبینہ طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی برہنہ تصاویر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک بھر میں پھینکوائیں اور اخبارات کی زینت بھی بنوائیں.

اس غلاظت بھری مہم نے جہاں محترمہ کی الیکشن کمپین کو نقصان پہنچایا وہاں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غلاظت اور پستی کے انمٹ نقوش چھوڑ گئی. اس کے بعد اور پہلے بھی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن قابل ذکر ریحام خان کی عمران خان بارے گھٹیا الزامات پر مبنی کتاب اور عائشہ گلالئی کو استعمال کرکے عمران خان پر ایس ایم ایس اسکینڈل اور سیتاوائٹ اسکینڈل.ان تینوں اسکینڈلزکے پیچھے بھی مبینہ طور پر نون لیگ کا ہاتھ بتایا جاتا ہے.


اب بات کرتے ہیں امریکن بلاگر سنتھیا رچی کی,  38 سالہ امریکی بلاگر 2009 میں پہلی مرتبہ پاکستان آئی, اس سے پہلے 2008 میں انہوں نےامریکہ میں ٹیکساس سٹی کونسل میں کمیونٹی رابطہ افسر کے طور پر پاکستانی کمیونٹی کےلیے کام کیا. پاکستان میں ڈیڑھ سال انہوں نے Humanity Hope نامی ایک این جی او میں کام کیا. 2011 میں سنتھیا نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کو جوائن کیا اس کے علاوہ سنتھیا رچی نے Through a different Lensنامی پروڈکشن کمپنی کا بھی آغاز کیا اور اس پروڈکشن کمپنی کے تحت مختلف دستاویزی فلمز بنائیں جن میں پاکستان کی سیاحتی ترویج اور پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا.

قارئین اگر سنتھیا رچی کی شخصیت کو کو اگر ایک پراسرار پرسنیلٹی کہا جائے تو کافی حد تک ٹھیک ہوگا. وہ ٹویٹر پر انڈین لوگوں کے ساتھ پاکستان کے حق میں بحث کرتے ہوئے اور پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرتے ہوئے نظر بھی آتی ہیں اور پاکستانی عوام اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا انہیں امریکن ایجنٹ بھی قرار دیتا ہے. سنتھیاآج کل بطور فری لانس رائٹر دی نیوز, ایکسپریس ٹریبیون اور ساؤتھ ایشیا میگزین کےلیے سٹوریز و بلاگز لکھتی ہیں.

سنتھیا رچی سب سے پہلے خبروں میں اس وقت آئی جب اس نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اپنی ایک ٹویٹ میں اس قتل کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ بختاور زرداری اور نقیب اللہ کا معاشقہ قرار دیا. اس کے بعد حال ہی میں سنتھیا نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف انتہائی گھٹیا اور بے ہودہ ٹویٹ کیا.  ایف آئی اے میں ان کے خلاف درخواستیں دی گئیں لیکن ایف آئی اے نے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہ کی.

اس کے بعد سنتھیا رچی نے بلاول بھٹو زرداری کو ہم جنس پرست قرار دیتے ہوئے اس کے انگریز دوست ڈیوڈ جیمز اور بلاول کے تعلقات اور تصاویر شائع کرکے ٹویٹس کیں اور ان ٹویٹس نے پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال برپا کردیا. اس کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کے ہی رہنما رحمان ملک پر ڈائریکٹ ریپ کا الزام لگا دیا اور بتایا کہ جب وہ وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے اس کے مشروب میں نشہ آور دوا ملا کے اس کا ریپ کر دیا اور کسی نے سنتھیا کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی کیونکہ رحمان ملک اس وقت کے وزیرداخلہ تھے.

اس کے علاوہ سنتھیا نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پر بھی جنسی حراسگی کا الزام لگایا ہے. اس کے علاوہ وہ مسلسل پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کی قابل اعتراض تصاویر ٹویٹر پہ شائع کر رہی ہیں. سنتھیا رچی نے مسلم لیگ نون کے چند راہنماؤں کے خلاف بھی ثبوت لانے کا عندیہ دیا ہے. جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اتنا عرصہ خاموش کیوں رہیں تو انہوں نے بتایا کہ ان سنگین الزامات کو سامنے لانے سے وہ بطور خاتون گھبرا رہی تھیں اور اب ان کے منگیتر نے ان کو حوصلہ دیا ہے تو وہ یہ سب راز اوپن کر رہی ہیں.


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکن نیشنل خاتون صحافی کس طرح سے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے خلاف مسلسل الزامات پہ الزامات عائد کیے جارہی ہے اور پارٹی صرف معمولی تردیدوں کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے. کیا یہ سمجھا جائے کہ واقعی پیپلز پارٹی کے یہ راہنما ماضی میں ایسی حرکتیں کر چکے ہیں؟ یا پھر کوئی قوت عائشہ گلالئی اور ریحام خان کی طرح سنتھیا رچی کو پاکستان پیپلزپارٹی کی کردارکشی کےلیے استعمال کررہی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی اس خاتون کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کر رہی؟ کیا واقعی ان الزامات کے ثبوت سنتھیا رچی کے دعوے کے مطابق اس کے پاس موجود ہیں؟ ایک بات اس اسکینڈل نے واضح کر دی ہے کہ پاکستانی سیاست کا گندہ اور مکروہ چہرہ کسی نہ کسی صورت اس ملک کےلیے ہزیمت کا باعث ہے.

اب پاکستانی عوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس میں اصل قصوروار کون ہے اور انہوں نے مستقبل میں کس قسم کی قیادت کا انتخاب کرنا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :