لالچیوں کے شہر میں ٹھگوں کی چاندی

بدھ 13 مئی 2020

Imtiaz Ahmad Jam

امتیاز احمد جام

کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔لالچ اچھے بھلے انسان کو ذہنی طور پر ماؤف کر کے اسے وقتی فائدے کی طرف اکساتی ہے. انسانی جبلت میں شامل ہے کہ وہ زندگی کی رعنائیوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور ان رعنائیوں کی کشش اس سے بعض اوقات وہ کام بھی کروا دیتی ہے جو اس کیلئے فائدہ مند ہونے کی بجائے الٹا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں. انسان وقتی فائدے کو دیکھتے ہوئے بعض اوقات ایسے جال میں پھنس جاتا ہے جہاں پر اسے اپنی جمع پونجی تو گنوانا پڑتی ہی ہے الٹا اس کے اس حرص و لالچ سے دوسرے بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔خودنمائی،دولت کا حصول،اسٹیٹس سمبل بننے کا شوق،دوسروں سے نمایاں اور امیر نظر آنے کی خواہش،لگژریز کی خواہش انسان کو بعض اوقات جائز ذرائع سے روزی حاصل کرنے کی بجائے ناجائز طریقے سے اور شارٹ کٹ کے ذریعے کچھ حاصل کرنے کی خواہش ابھارتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کی اس خواہش کو موقع پرست اور ٹھگ ٹائپ لوگ بخوبی بھانپتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرتے جبکہ خواہشات کا مارا شخص خود بخود ان کے ٹریپ میں آ پھنستا ہے۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3143 میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ روپیہ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا، پھر دوبارہ میں نے مانگا اور اس مرتبہ بھی آپ نے عطا فرمایا، پھر ارشاد فرمایا، حکیم! یہ مال دیکھنے میں سرسبز بہت میٹھا اور مزیدار ہے لیکن جو شخص اسے دل کی بے طمعی کے ساتھ لے اس کے مال میں تو برکت ہوتی ہے اور جو شخص اسے لالچ اور حرص کے ساتھ لے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کھائے جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہوتا ہے۔
ایک اور جگہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''اللہ کی قسم میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کیلئے حرص کرنے لگو گے''
لالچ اور حرص کی سینکڑوں بلکہ لاکھوں مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن میں لوگوں نے زیادہ پانے کے لالچ میں اپنے آپ کو برباد تک کر ڈالا اور ان حریص اور لالچی لوگوں سے معاشرے میں موجود ٹھگوں نے کافی فائدہ اٹھایا۔کہیں پہ جعلی کرنسی بنانے کا جھانسہ دے کر لوگوں کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کیا گیا تو کہیں انعامات کا لالچ دیکر لوگوں کو لوٹا گیا.

ابھی حال ہی میں ایک پرائیویٹ کمپنی کی جانب سے مقامی کیبل پر اشتہارات چلائے گئے کہ انہیں فنانس مارکیٹنگ کیلیے سٹاف درکار ہے تو کافی سارے خواتین و حضرات نے اپلائی کیا. ان میں سے چند افراد کو باقاعدہ ملازمتیں دی گئیں اور انہیں سروس کارڈز بھی بنا کر دیے گئے اور ان کے ذمہ یہ مارکیٹنگ لگائی گئی کہ کمپنی لوگوں کو بلا سود قرضے فراہم کر رہی ہے اور جو خواتین و حضرات ان قرضوں کیلئے اپلائی کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے کوائف جمع کروائیں.

250 روپے فی کس رجسٹریشن اور 700 سے 1500 پراسیسنگ فیس کی مد میں وصول کیے گئے. 300 سے زائد افراد نے فیلڈ ورکرز کی باتوں میں آکر اپلائی کیا اور سب افراد کو لون اماؤنٹ کے چیکس دے دیے گئے جن پر 11 مئی 2020 کی تاریخ درج تھی۔
مقررہ دن جب یہ لوگ اپنے چیکس کیش کرانے کیلئے گئے تو پتہ چلا کہ کمپنی کا اکاؤنٹ کافی عرصہ پہلے بند ہو چکا ہے جبکہ دوسری طرف کمپنی مالکان بھی اپنے آفسز وغیرہ بند کر کے جا چکے تھے اور ان کے رابطہ نمبر بھی بند ہیں.

یوں چند افراد نے نوکری کے لالچ میں بنا تحقیق لوگوں کو کنوینس کیا اور 300 سے زائد افراد نے بلا سود قرضے کے لالچ میں اپنا نقصان کروا لیا. ہم یوں تواپنے آپ کوبہت سمجھ دار اور چالاک قوم سمجھتے ہیں. لیکن مذکورہ واقعے میں ایک سادہ سی بات کسی نے نہیں سوچی کہ ایک پرائیویٹ کمپنی کیونکر بغیر سود کے قرضے دیگی اور اس میں اس کا کیا فائدہ ہوگا. آئے روز اسطرح کے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں لیکن لالچ اور حرص کے مارے لوگ ان سب واقعات سے آگاہ ہونے کے باوجود ان ٹریپس کا آسانی سے شکار ہوتے ہیں.

وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ جائز اور ناجائزطور پر دولت حاصل کی جائے. ایسے وقت میں ہم الباکستانیوں کو نہ ہی خدا یاد آتا ہے اور نہ ہی اخلاقیات بلکہ حرص ولالچ کی بندھی پٹی ان کے اپنے اور ان کے ریلیٹڈ افراد کے نقصان کا باعث بنتی ہے. 
ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی طور پر حرص و لالچ جیسی برائیوں سے اپنے آپ اور اپنے پیاروں کو بچانے کیلئے آگاہی مہم چلائی جائے.

لوگوں کو یہ ایجوکیٹ کرنے کی کوشش کی جائے کہ حرص و لالچ کے تحت کیے گئے اقدامات وقتی طور پر تو فائدہ مند نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے زیر اثر شخص کسی ٹھگ کا شکار بن رہا ہوتا ہے جو اس کی اس خصلت کو Provoke کر کے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے. لوگوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اللہ نے جو رزق ان کیلئے لکھ دیا ہے وہ ان کو ضرور ملے گا نہ کم نہ زیادہ چاہے وہ جتنا مرضی ہاتھ پاؤں مار لیں. اسی لیے چاہیے کہ اللہ توکل کرکے حلال رزق کمانے کی کوشش کریں اور حرص اور لالچ جیسی برائیوں سے دور رہیں. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :