ہم کب سدھریں گے؟

پیر 4 مئی 2020

Imtiaz Ahmad Jam

امتیاز احمد جام

کوئی بھی مہذب معاشرہ اس وقت مہذب کہلاتا ہے جب اس میں باسیوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہو. جہاں انصاف کا بول بالا ہو,  جہاں صحت, تعلیم اور دیگر ضروریات زندگی اس معاشرے کے افراد تک بہم پہنچائے جاتے ہوں. جہاں افراد معاشرہ ایکدوسرے کے حقوق کا نہ صرف خیال رکھتے ہوں بلکہ ایکدوسرے کے مفاد کےلیے قربانیاں تک دینے سے گریز نہ کرتے ہوں.

مہذب معاشرے میں افراد معاشرہ قواعد زندگی کا خیال رکھتے ہوئے دوسروں کےلیے تکالیف کا باعث بننے کی بجائے ان کی زندگیوں کو سہل بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہوں. کاروبار زندگی بھی وضع کردہ قواعد و ضوابط واخلاقیات کے دائرے میں کیا جاتا ہو. ایسے معاشرے کو مثالی معاشرہ کہا جاتاہے.

(جاری ہے)

وطن عزیز کے قیام کا خواب جب شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیکھا اور قائداعظم محمد علی جناح نےاپنی اور اپنے ساتھیوں کی انتھک محنت کے بعد اس کی تکمیل کی تو اس وقت جو ریاستی اصول وضع کیےاور ان کی تعلیمات دیں وہ بالکل ایک مہذب معاشرے کے مندرجہ بالا قواعد کے عین مطابق تھیں.

انہوں نے خواب دیکھا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان ایک علیحدہ ریاست میں انصاف وقانون کی بالا دستی پر مبنی ایک مہذب معاشرے کا قیام کریں گے جہاں ہر فرد کو اس کے حقوق کے حصول میں دشواری نہیں ہوگی اور پاکستان کے باسی ایک پرامن اور باوقار زندگی بسر کریں گے. جہاں کے باسیوں کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی اور وہ اپنے عقائد کے مطابق اپنے ایام زندگی بسر کر پائیں گے.

جہاں پر اقلیتوں کو مکمل حقوق دیے جائیں گےاور انصاف کا بول بالا ہوگا. مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کے اصولوں پر چلنا تو درکنار ان کی روح سے بھی الٹ معاشرہ قائم ہوگیا. کاروبارِ ریاست میں مفادپرست عناصر کی اجارہ داری ہوگئی. وہ جاگیردار طبقہ جو انگریزوں کے دور میں ان کی غلامی کی بدولت جن کو جاگیروں اور دولت سے نوازا جا چکا تھا آہستہ آہستہ کاروبارِ زندگی پر قابض ہوتا چلا گیا.

قصہ مختصر ان مفاد پرست عناصر نے پاکستانی معاشرے کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے برائیوں کے فروغ کی صورت میں ڈھالنا شروع کردیا. انتظامی اداروں میں اپنے من پسند افراد کو بغیر میرٹ کے بھرتی کیا گیا اور وہ افراد بتدریج ان اداروں کی تباہی کا باعث بنتے گئے. رشوت خوری,  ناانصافی اور اقرباء پروری جیسی برائیاں جن کو ایک معاشرے کےلیے ناسور سمجھا جاتا ہے وہ ہماری قوم میں اس قدر رچ بس گئیں کہ اب ان برائیوں کے بغیر یہ معاشرہ ادھورہ دکھائی دیتا ہے.

دھوکہ دہی, فراڈ اور چوری اس معاشرے کے قابل فخر اعمال میں شامل ہیں. اخلاقی انحطاط کی اسقدر خوفناک صورتحال ہے کہ دوسروں کے حقوق غصب کرنا بہادری اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی باعث فخر سمجھے جاتے ہیں.
ایسی صورت میں جہاں تقریباً 90 فیصد سے زیادہ افراد معاشرہ ان اخلاقی برائیوں کا بری طرح شکار ہوچکے ہیں وہاں باقی ماندہ طبقہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے.

ابھی حال ہی میں کورونا وائرس سے پیدا صورتحال میں ہماری اخلاقی انحطاط کی بہت ہی زیادہ مثالیں دیکھنے میں آئیں جن سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم بالحیث القوم کس قدر سنگدل اور بےحس بن چکے ہیں. ہم اخلاقی گراوٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں موجود قوم پسی ہوئی عوام کا حق کھانا انٹرٹینمنٹ سمجھتی ہے. ہوا یوں کہ جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو مخیر حضرات کو احساس ہوا کہ کیوں نہ اس سفید پوش طبقہ یا غریب افراد کی امداد کی جائے جو اس بندش کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں تو ایسی بے حسی دیکھنے میں آئی کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد امداد لیتے دکھائی دیے.

انہوں نے ایک لمحہ کےلیے بھی یہ نہیں سوچا کہ جو امداد وہ لے جائیں گے وہ ان کے کسی غریب بھائی کا حق ہے اور یہ حق اسے نہ ملنے پر پتہ نہیں اس کے بچوں اور خاندان کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. اسی طرح جب حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (موجودہ احساس پروگرام) میں رجسٹرڈ افراد کی سکروٹنی کی تو تقریباً 8 لاکھ سے زائد ایسے افراد ملے جو اس امداد کے بالکل بھی حقدار نہ تھے.

مرنے کا مقام یہ کہ بہت سےگریڈ 17 سے 22 تک کے افسران نے بھی اس پروگرام میں اپنی یا فیملی ممبران کی رجسٹریشن کروا رکھی تھی اور غریبوں کا حق کھا رہے تھے. جب حکومت نے لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کو احساس پروگرام کے تحت 12000 فی خاندان دینے کا اعلان کیا تو وہاں بھی ایسے ایسے لوگوں کو امداد لیتے دیکھا گیا جو کسی صورت بھی اس امداد کے حقدار نہ تھے.

خود ہمارے ہمسائے میں کئی افراد جو اچھے خاصے روزگار کے حامل ہیں.کسی کی دکان ہے تو کسی کا اپنا کاروبار لیکن وہ بڑے فخر سے بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں ہیں کہ وہ بھی 12000 لے آئے ہیں. اس کے علاوہ اور بھی سینکڑوں مثالیں بیان کی جاسکتی ہیں کہ کس طرح یہ بے حس اور بے ضمیر لوگ اصل حقداروں کا حق کھاتے ہیں.
واحد ملک پاکستان ہے جہاں رمضان کا مبارک مہینہ آتے ہی اشیائے ضروریہ کے نرخ آسمانوں کو چھونے لگتے ہیں.

جہاں تاجر بے ایمانی کو اپنا حق سمجھتا ہے. جہاں آجر مزدور کا حق کھانا اپنی بہادری سمجھتا ہے. جہاں طاقتور کمزور کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے. یہاں کے معاشرے کو ہم کسی صورت بھی آئیڈیل معاشرہ قرار نہیں دے سکتے. مولانا طارق جمیل صاحب نے گذشتہ دنوں احساس پروگرام کی ٹیلی تھون میں جب ان برائیوں کا ذکر کیا اور پاکستانی قوم کو ایک بے ایمان اور مفاد پرست قوم قرار دیا تو بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کی لیکن میں یہ برملا کہنے پر مجبور ہوںکہ مولانا صاحب کا ایک اہک لفظ حقیقت  پر مبنی ہے.  برائیاں اتنی ہیں کہ صفحات کے صفحات کالےہو جائیں.

جو معاشرہ فراڈ کو چالاکی, چوری کو حق سمجھتا ہو تباہی و بربادی اس معاشرے کا مقدر ہوتی ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں کورونا اور اس طرح کی دوسری آفتوں کے ذریعے سدھرنے اور توبہ کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن ہم ایسی صورتحال میں بھی بجائے سدھرنے کے اپنی پرانی روش پہ قائم ہیں. وقتی مفادات کی خاطر ہم نے اجتماعی مفادات و اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا ہے. اگر یہی صورتحال رہی اور ہم نہ سدھرے تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اجتماعی رویوں کو بدلیں اور حقیقی مسلمان ہونے کا ثبوت دیں. انسانیت کے اصولوں کی پاسداری کریں ورنہ.....

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :