موجودہ کرائسز اور تارکین وطن

بدھ 29 اپریل 2020

Imtiaz Ahmad Jam

امتیاز احمد جام

دیار غیر میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانی ایک لحاظ سے اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کےلیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گھر,  عزیز,رشتہ داروں,دوستوں وغیرہ کو چھوڑ کر روزی کےلیے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور وہاں سے محنت کرکے سرمایہ زرمبادلہ کی صورت میں اپنے وطن بھیجتے ہیں. ان کا بھیجا جانےوالا سرمایہ ان کے پیاروں کی زندگیوں میں خوشحالی تو لاتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کےوطن کی اکانومی کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے.

(جاری ہے)

اسی لیے ہر ملک اپنے تارکین وطن کا مختلف طریقوں سے خیال رکھتا ہے اور ہرملک میں ان کی فلاح و بہبود کےلیے ایک وزارت مختص کرتا ہے جو ان کے مسائل کے حل کےلیے متعلقہ قونصلیٹ یا ایمبیسی کے ذریعے مختلف اقدامات کرتی ہے. ایک تارک وطن جب اپنا گھر بار چھوڑ کر دیارغیر میں روزی کمانے جاتا ہے تو اس کی اور اس کے گھر والوں کی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب ہوتے ہیں.

وہ اپنے گھر کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا مارااپنا وطن چھوڑتا ہی اسی لیے ہے کہ اس کے حالات بدل جائیں. اپنا گھر, اپنا وطن اور پیاروں کو چھوڑنا اور اکیلے محنت مزدوری کرکے سرمایہ اپنے گھر بھیجنا, اس پراسس کو اگر جہاد کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا.
چائینہ سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہاں ہمارے پیارے وطن کے اوورسیز افراد کی زندگیوں پر بھی بہت برا اثر ڈالا ہے.

دنیا بھر میں اس وبا نے کاروبار زندگی تقریباً بند کردیا ہے اور تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس کرائسز کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں. ہر ملک اپنے شہریوں کو اس کرائسز سے نکالنے کےلیے حتی المقدور کوشش کر رہا ہے. وہاں تارکین وطن انتہائی کسمپرسی کا شکار ہوگئے ہیں. چونکہ یہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے دیسوں میں بہتر روزگار کی تلاش میں گئے تھے اور اب جبکہ دنیا بھر میں روزگار کے مواقع اور بزنسز پر یہ وبا بری طرح اٹیک کر چکی ہے تو ان تارکین وطن کی روزی کا ذریعہ بھی تقریباً بند ہو چکا ہے.

میں بذات خود ایسے کئی افراد کو جانتا ہوں جو اپنی نوکریوں سے یا تو ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پھر ان کی کمپنیوں نے بزنس نہ ہونے کہ وجہ سے انہیں بغیر تنخواہ لمبی چھٹیوں پہ بھیج دیا ہے. سونے پہ سہاگہ یہ کہ دنیا بھر میں فلائیٹ آپریشنز بند یا محدود ہونے کی وجہ سے ایسے متاثرہ تارکین وطن اپنے ملکوں میں آنے سے بھی قاصر ہیں. اب قارئین یہ اندازہ لگائیں کہ نہ نوکری, نہ روزگار, نہ اپنا گھر نہ کاروبار, کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں تو ماہانہ کرایہ تو دینا پڑے گا.

کھانا تو کھانا ہے, یوٹیلیٹی بلز تو دینے ہیں. پیچھے ان کے سہارے جو خاندان پل رہے ہیں تو ان کو تو پورا کرنا ہے. جائیں تو جائیں کہاں؟ اس صورتحال میں ان کے روزمرہ زندگی کے دن کیسے کٹ رہے ہوں گے آپ بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں. اس امید پہ زندہ یہ لوگ کہ کوئی تو مسیحا آئیگا جو ان کو اپنے وطن واپس لیجائے گا یا ان کی ضروریات پورا کریگا. یقین مانیں بہت بڑا کرائسز ہے.

ایسی صورتحال میں حکومت پاکستان کا فرض بنتا تھا کہ وہ ان کا خیال رکھے اور ان کی ضروریات اور واپسی کا بندوبست کرے.موجودہ حکومت نے گو پہلی حکومتوں کی نسبت تارکین وطن کو کافی اہمیت دی اور موجودہ کرائسز سے نمٹنے کےلیے کافی اقدامات کیے لیکن شاید ناتجربہ کاری اور مشیروں کے ناقص مشوروں کی وجہ سے حکمت عملی اور پالیسیز میں Flaws دیکھے گئے.

ذیل کی سطور میں ہم ان اقدامات وکوتاہیوں کا مختصراً جائزہ لیں گے.
سب سے پہلے تو حکومت پاکستان نے اپنی ایمبیسیز اور قونصلیٹس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایسے تارکین وطن کےلیے راشن اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے جن کی نوکریاں اور کاروبار اس کرائسز سے متاثر ہوئے ہیں. بہت سے افراد کے پاس راشن کی یہ سہولت بہم پہنچائی بھی گئی لیکن چونکہ ہماری یہ روایت رہی ہے کہ ہر محکمہ میں نااہل اور سفارشی و سیاسی بھرتیاں کی گئیں اور بدقسمتی سے بیرون ملک ایمبیسیز کے سٹاف کی اکثریت بھی نااہل اور سیاسی سفارشی افراد پر مشتمل ہے اسی لیے اس پراسس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مکمل ڈیٹا نہ ہونے اور تارکین وطن سے ایمبیسیز کے رابطے کے فقدان نے مستحقین کی اکثریت کو اس سہولت سے دور رکھا.

اسی طرح حکومت پاکستان نے جب Stranded Pakistanis کی واپسی کےلیے پالیسی کا اعلان کیا تو انٹرنیشنل کمیونٹی نے اس کا خیر مقدم کیا اور مقامی سطح پر بھی اس کو سراہا گیا. لیکن یہاں بھی لگتا ہے نالائق مشیروں نے وزیراعظم اور انتظامیہ کو حالات کے مارے لوگوں کی دعاؤں سے محروم رکھا. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے پاکستانی جو پہلے ہی حالات کے مارے ہیں کو احساس پروگرام کا حصہ بناتے ان کے زخموں پر مرحم رکھتے ہوئے انہیں حکومت پاکستان کے خرچے پر واپس لایا جاتا.

لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا بلکہ واپسی کےلیے ان پاکستانیوں سے پورا کرایہ (پاکستان سے جہاز خالی جانے کا کرایہ+ سوشل ڈسٹانسنگ کےلیے ایک سیٹ چھوڑنے کا کرایہ + اصل کرایہ)  یعنی ٹوٹل تین گنا کرایہ وصول کیا جارہا ہے اور ان کو اس ایپڈیمک سچویشن میں ایمبیسیز میں لمبی لائنیں لگوا کر ٹکٹیں فروخت کی جارہی ہیں. میرے خیال میں یہ ان اوورسیز پاکستانیوں پر بڑا ظلم ہے جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں.

ایسے پاکستانی جو کہ دیارغیر میں رہ کر زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں. اپنے پیاروں کو چھوڑ کر بہتر زندگی خواب لیے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں, کسی بھی مشکل گھڑی میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں بھی جن کا سب سے اہم کردار ہے, ان کو واپس لانے کےلیے اگر حکومت وقت فلائیٹ آپریشن ہی فری نہیں کر سکتی تو میرے خیال میں میں حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی.

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کے ان غلط فیصلوں پر نظرثانی کریں اور ان فیصلوں کے محرکات مشیران کی وفاداریوں کا ازسرنو جائزہ لیں کہ کون سی ایسے اپنے ہیں جو نشیمن پہ مسلسل بجلیاں گرائے جا رہے ہیں؟ امید ہے جناب وزیراعظم ان پاکستانیوں کی دادرسی کےلیے ذاتی دلچسپی لیں گے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :