فوٹو گرافی انڈسٹری کا عروج وزوال

جمعہ 17 جولائی 2020

Imtiaz Ahmad Jam

امتیاز احمد جام

یہ غالبا نائنٹیز کا اختتام تھا جب فوٹوگرافی انڈسٹری اپنے تبدیلی کے مراحل میں تھی فوٹو گرافی پر راج کرنے والے برانڈز کوڈک اور فیوجی فلم قابل ذکر تھے جو کہ بتدریج اپنی افادیت کھو رہے تھے۔  کیونکہ کسی زمانے میں فوٹوگرافی میں ڈارک کمروں میں فلموں کی ڈویلپنگ سے لے کر بڑی مشینری کو استعمال کرکے پرنٹ حاصل کیے جاتے تھے۔ لوگوں کے پاس یاشیکا، نیکون، یا کینن جیسی کمپنیوں کے بڑے بڑے کیمرے ہوتے تھے جن میں فیوجی فلم یا کوڈک کی فلمیں جو غالبا 36 فوٹوز پر مشتمل ہوتی تھیں، ڈالی جاتی تھیں اور ان کیمروں کو بلائنڈلی استعمال کیا جاتا تھا۔

  پھر ان فلموں کو ڈویلپ کرنے کے لیے فوٹو سٹوڈیوز پر لایا جاتا ہر فوٹو سٹوڈیو کا ایک ڈارک روم ہوتا تھا اس ڈارک روم میں فلمزکو انتہائی احتیاط کے ساتھ ڈویلپ کیا جاتا۔

(جاری ہے)

اور پھر کہیں جا کے ان کی پرنٹنگ کا مرحلہ آتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ مری کی سیر کو گیا اور یاشیکا کمپنی کا ایک کیمرہ دوست سے ادھار لے کر گیا، فوٹوگرافی کا تازہ شوق تھا اسی لیے فیوجی فلم کی اعلی کوالٹی کی فلم حاصل کی اور لگے فوٹو بنانے۔

ایسی ایسی لوکیشنز ڈھونڈ کے فوٹو بنائے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں لیکن شومئی قسمت کہ واپسی پر جب فوٹو سٹوڈیو سے فلم ڈویلپ ہو کرآئیں تومعلوم ہوا کہ ہماری ساری کی ساری فلم  خالی ہے۔ الغرض بہت ہی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
 پھر نائنٹیز کے آخر میں ڈیجیٹل کمپیوٹر کا دور آیا تو اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل کیمرہ بھی مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا۔

ابتدائی طور پر تو یہ ڈیجیٹل کیمرہ تھوڑا مہنگا تھا اس لیے پرانے کیمراز اور فوٹو سٹوڈیو کا بزنس چلتا رہا اور بتدریج زوال پذیر بھی ہوتارہا۔ آخر کار مکمل طور پر ڈیجیٹل کیمرہ نے مارکیٹ کو کور کر لیا تو پرانے کیمراز مارکیٹ سے آؤٹ ہو گئے اور فوٹو سٹوڈیو کا بزنس بھی ماند پڑ گیا۔ پھر 2002 سے 2012 تک ڈیجیٹل فوٹو گرافی کے عروج کا دور آیا۔  جس میں نت نئے کیمراز ایجاد کیے گئے فوٹوگرافی کی صنعت نے باقاعدہ سائنس کی جگہ لے لی اور فوٹو گرافی کا فن ایک باقاعدہ بڑے معاوضے والا فن بن گیا اور فوٹوگرافرزنے کمپیکٹ، سیمی ڈی ایس ایل آر، ڈی ایس ایل آر اور مررلیس کیمرازکے ذریعے تصاویر میں نت نئی ٹیکنالوجیز متعارف کرائیں اور ڈیجیٹل کیمرا اور ڈی ایس ایل آر کیمرہ نے ایک فیشن کی صورت اختیار کر لی۔

اسپیشلی ڈی ایس ایل آر کی موجودگی کو اسٹیٹس سمبل پہچانا جانے لگا اور ڈی ایس ایل آر انڈسٹری نے بلینز میں بزنس کیے۔ میں بذات خود متحدہ عرب امارات میں نیکون کیمرہ بنانے والی کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ یقین مانیں باوجود نیکون سے بڑے canon جیسے مدمقابل ہوتے ہوئے بھی اور سونی اور olympus جیسے برانڈز کی موجودگی میں ہماری کمپنی نے متحدہ عرب امارات کے اندر 800 ملین درہم سالانہ سے زیادہ ٹرن اوورکمایا اور 2012 کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہماری کمپنی کو ڈی ایس ایل آر کے بزنس کو پس پشت ڈال کر دوسرے شعبہ جات میں تجارت کو اپنانا پڑا۔

کیونکہ فوٹوگرافی بزنس کو سب سے بڑا نقصان موبائل ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات نے پہنچایا ۔ صارفین میںbulky کیمرے استعمال کرنے کی بجائے جیب میں سما جانے والے موبائل فون کو بطور کیمرہ استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گیا۔ اوپر سے موبائل کمپنیوں نے صارفین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے موبائل فون کے کیمرہ فیچرز کواتنی جدت دےدی کہ وہ کسی بھی ڈی ایس ایل آر کی کوالٹی سے کسی قدر کم نہ رہے۔

اور یوں فوٹوگرافی انڈسٹری اپنے عروج سے زوال کی طرف بڑھنے لگی اب صورتحال یہ ہے کہ سوائے چند پروفیشنلز کے مہنگے کیمروں کا استعمال لوگوں نے بند کر دیا ہے اور عام صارف نے اپنی فوٹوگرافی کی ضروریات کوموبائل فون کی حد تک محدود کر لیا ہے۔
 فوٹوگرافی انڈسٹری کےعروج و زوال کی اس مختصر کہانی کو بیان کرنے کا مقصد محض یہی ہے کہ انسان کو زندگی میں اپنے لیے کسی بھی چیز کو لازم و ملزوم کر دینا بالکل بھی مناسب نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک شعبہ میں مہارت انسان کو ساری زندگی کے معاملات چلانے میں مددگار و معاون ثابت ہوتی ہے۔

اور دوسرا مقصد کہ یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور دنیا میں ہونے والی ارتقائی، جغرافیائی، معاشی اور ٹیکنالوجی میں تبدیلیوں کا اثر انسانی زندگی پر ڈائریکٹ پڑتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے شعبے میں بتدریج آنے والی جدت کو اپنانے کے لئے ہمیشہ اپنے شعبہ سے متعلقہ علم میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے اور ساتھ ساتھ دوسرے دنیاوی علوم کا بھی مطالعہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ اگر وقت کا تقاضہ ہو تو بندہ اپنی پروفیشنل لائن تبدیل کرکے وقت کے ساتھ چلنے کے قابل ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :