کشمیر کا تاریخی پس منظر اورنام نہاد کانفرنس ۔ قسط نمبر1

جمعرات 8 جون 2017

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

صوفیاء ، علمائے حق اور محققین نے موسموں کو کبھی انسانی مزاجوں سے مطابقت دی ہے تو کبھی قوموں کے عروج و زوال کو موسموں سے تشبیہہ دی ہے۔ ابن خلدون نے انسانی پیدائش اور پھر تہذیبوں کو موسموں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ایک ایسا بھی دور گزرا ہے جب انسان کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا ۔ خالق کائنات نے کلام پاک میں بار بار انسان کو باور کروایا ہے کہ اس کی اہمیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ خالق ومالک اللہ نے اُسے عقل و خرد سے نواز ا اور اشر المخلوقات کے درجے پر فائز کیا۔

قرآن کریم میں پیدائش کے ذکر کے ساتھ ر ب کائنات نے اپنے لطف و کرم کا بھی ذکر کیا کہ اس کی عنایات سے ہی انسان کو دنیا میں اعلیٰ مقام ملا اور پھر اطاعت کے صلے میں آخرت میں جنت کی زندگی نصیب ہوگی ۔

(جاری ہے)

وہ لوگ اور قومیں جو نافرمان ہونگی انہیں دنیا کی عیش و موج کے صلے میں آخرت کا عذاب ملے گا جو برا ٹھکا نہ ہے جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہینگے ۔
آج مایوس و محکوم قومیں شکو ہ کناں ہیں کہ ہم تو نمازیں پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، حج وزکوٰة کا فریضہ ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ عروج نہیں جو اہل مغرب اور اُن اقوام کے نصیب میں ہے جو نہ تو خدا کے احکامات مانتے ہیں اور نہ اُس پر ایمان رکھتے ہیں۔


حضرت عیٰسی نے دعا کی کہ اے اللہ تو میرے قو م پر ایسا خوان اتار کہ وہ پیٹ بھر کر کھائیں گو یا کہ اُن کی عید ہو جائے۔ یہ دعا اُن لوگوں کے لیے تھی جو جناب عیسیٰ  پر ایمان لائے۔ خالق کے لطف و کرم کا اندازہ لگائیں کہ رب تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے محبوب نبی  آپ کی دعا تو قبول کی۔ میں تو اُن کو بھی دونگا جو ایمان نہیں لائے اور منکر ہوئے۔

البتہ آخرت میں اُن کے لیے کوئی صلہ نہیں۔
غور کیا جائے تو صوفیاء اور عالم حق ہی اصل محقق ہوتے ہیں۔ان کی تحقیق کا آغا ز احد سے ہوتا ہے اور پھر احد ہی میں انکا دائرہ مکمل ہوتا ہے ۔ یہ دائرہ کیا ہے۔ یہ دائرہ ہے۔ انا اللہ علی کل شیٍ قدیر اور انا اللہ علی کل شیٍ محیط ۔ یعنی سب کچھ اُس ذات با برکات کا ہے جسکا احاطہ ممکن نہیں۔ساری کائنات اس کے احاطہ قدرت میں ہے اور وہ ساری کائنات پر محیط ہے۔

اُس کے احاطہ قدرت سے باہر کچھ نہیں ۔ یہ مخلوق کی بات ہے اور دائرہ اُس کی تخلیق ہے۔ دائر ے سے باہر وہ خود ہے یعنی اُس کی رحمت اور نور کے سمندر ہیں جن کا کسی کو علم نہیں ۔ ایک ولی ، صوفی اور عالم حق جب تک ان مظاہرکا مشاہدہ مکمل نہ کرے وہ محقق نہیں ہوسکتا ۔ ایسے محقق جب مبلغ بن کر سامنے آتے ہیں تو ان کی زبان کی تاثیر مخلوق کے دل پر اثر کرتی ہے اور اُن کی تقدیر بدل دیتی ہے۔


ضروری نہیں کہ ایسے محقق اور مبلغ کسی آستانے پر بیٹھے بڑے پیر صاحب ہوں یا کسی دینی جماعت کے سر پرست اعلیٰ یا کسی مدرسے یا یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل سند یافتہ دانشور ۔ بعض فرقوں اور مسالک سے جڑے بااثر لوگ بھی عالم و حکیم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر یہ سب ظاہر ی تشہیر اور عوام الناس کو دھوکہ دینے والے ابن الوقت شکاری ہیں جو عوام کو بہلا پھسلا کر اپنے جال میں پھانستے ہیں اور اپنی دکانداری چمکاتے ہیں۔


یہ بھی ایک سوال ہے کہ آخر عوام ان کے بہکاوے میں آکر صراط مستقیم سے کیوں ہٹ جاتے ہیں اور اپنے آگے مصائب و الم کے پہاڑ کھڑے کر کے غموں اور دکھوں کی زندگی گزارتے ہیں ۔
قرآن کریم میں واضح ہدایت ہے کہ جب تم اپنے اعمال درست نہ رکھو گے اور شیاطین کے بہکاؤے میں آکر میری راہ ہدایت سے فرارا اختیار کرو گے تو تم پر ایسے لوگ مسلط کر دیے جائینگے جو تمہاری زندگیاں اجیرن کر دینگے ۔

فرعون ، نمرود ، شداد ، چنگیز خان ،ہلاکو اور کشمیر کی تاریخ کے چار درندہ صفت کردار مہر گل ، ذوالقدر خان تاتاری ، اچل اور شیخ عبداللہ کی بد ترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
عیسوی سن شروع ہوا تو کشمیر میں ایک روحانی تبدیلی سامنے آگئی ۔ کشمیر کے حکمران راجہ سندیمان نے خلوت نشینی اختیار کرلی اور امور سلطنت چلانے کے لیے قندہا رکے گورنر راجہ میگواہین کو طلب کیا اور تخت و تاج سے دستبردار ہو کر جنگلوں میں روپوش ہو گیا ۔

راجہ میگواہن کے بعد اسکا بیٹا سر شٹ تخت نشین ہوا۔ 65ء میں راجہ ہرن دیو اور 95ء میں راجہ ماترگیت کشمیر کا حکمران بنا۔ 102ء میں راجہ پرورسین تخت نشین ہوا جس نے سرینگر دارالحکومت کی بنیاد رکھی اور دریائے جہلم پر پہلا پل تعمیر کیا۔ اس خاندان کے آخری راجہ جد ہشٹر نے 39سال دو ماہ کشمیر پر حکمرانی کی جسکا اختتام 201ء میں ہوا۔ دو سو سال بعد کشمیر میں بدھ مت زوال پذیر ہوا تو جنوبی ایشیاء میں ہن حکمران مہرگل نے بدھ مت کے پیروکاروں کا قتل عام شروع کر دیا۔


جنوبی ایشیاء کے مختلف راجگان نے مہرگل کے خلاف مشترکہ کارروائی کی تو شکست خوردہ مہر گل نے اپنے دار الحکومت سکالا موجودہ سیالکوٹ میں پناہ لی۔ متحد ہ راجگان کی افواج نے سکالا کا محاصرہ کیا تو مہر گل اپنے ساتھیوں اور خاندان کے ہمراہ کشمیر بھاگ گیا جہاں رحمدل حکمران بالادت نے نہ صرف اسے پناہ دی بلکہ گزراوقات کے لیے جاگیر بھی عطا کی ۔

درندہ صفت مہر گل نے بالادت کی سادگی سے فائدہ اُٹھایا اور اپنے محسن پر شب خون مار کر شاہی خاندان کے بیشتر افراد کو قتل کر دیا۔
مہر گل نے سکالا اور گرد و نواح سے کثیر تعداد میں غنڈہ صفت عناصر کو جمع کیا اور سارے کشمیر پر قابض ہو گیا۔ کشمیر کی تاریخ میں مہرگل کی تری کوٹہ یعنی تین کروڑ کا قاتل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 530ء میں درندہ صفت ہر گل کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور اُس نے اپنے سینے میں زہر آلودہ خنجر گھونپ کر خود کشی کر لی روایات میں ہے کہ اُن دنوں شمال سے ایک درویش کشمیر وار د ہوا جس کے آتے ہی مہر گل کی حالت غیر ہوگئی ۔

دوریش سرینگر پہنچا تو اُس رات مہر گل نے خود کشی کر لی ۔ بالادت گونندہ خاندان کا آخری حکمران تھا۔ بالادت کے بعد کار کوٹ خاندان حکمران بنا ۔ اسی خاندان کے دو مشہور حکمرات للتادت اور اونتی ورتن کشمیر کی تاریخ کے درخشاں ستارے ہیں جن کے ادوار میں کشمیر یوں نے کاشغر سے لیکر خلیج بنگال اور بدخشاں سے ہرات تک فتح کے جھنڈے لہرائے ۔ ان کے دور میں عد ل و انصاف ، رعایا پروری ، علم وادب کے فروغ ، شفا خانوں اور شاہراؤں کا ایسا نظام مرتب ہوا جن کے آثار آج بھی موجود ہیں۔


للتادت کے دور اقتدار میں631ء میں مشہور چینی دانشور ، بدھ مت کا مبلغ اور سیاح ھیون سانگ ٹیکسلا سے ہوتا ہوا اوڑی کے راستے کشمیر میں داخل ہوا۔ہیون سانگ کے علمی اور روحانی مرتبے کو مد نظر رکھتے ہوئے بادشاہ ہاتھی پر سوار ہو کر جلوس کے ہمراہ شہر سے باہر آیااور ھیون سانگ کو اپنے ساتھ بٹھا کر شاہی دربار تک لے گیا ۔ چینی تاریخی ورثے میں فائین اور ھیونگ سانگ کے دورہ کشمیر کا ذکر موجود ہے مگر بد قسمت کشمیری اپنا ماضی بھو ل چکے ہیں۔


1323ء میں جب راجہ سہد یو کشمیر کا حکمران تھاتو کشمیر پر ایک اورعذاب نازل ہوا جس کی گونج صدیوں سنائی دیتی رہی۔ یہ ایسا انسانی عذا ب تھاجس نے ہزاروں سالہ کشمیری تاریخ کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا اور کشمیری تہذیب کو جڑوں سے اکھاڑ کر باہرپھینکا ۔ ترکستان سے ذوالقدار خان نامی تاتاری درندہ ستر ہزار وحیشوں کا لشکر لیکر دراوہ کی سمت سے کشمیر میں داخل ہوا۔


ذولقدر خان جسے ذوالچوخان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے نے کشمیر میں داخل ہوتے ہی اپنی سپاہ کو قتل عام اور لوٹ مار کا حکم دیا ۔ تاتاریوں نے سارے کشمیر کو آگ میں جھونک دیا ۔بستیوں اور شہروں کو مسمار کیا ۔ جنگلوں کو آگ لگائی اور کوئی پھلدار درخت اور باغ تک نہ چھوڑا ۔ غلے کے گوداموں کو نذر آتش کیا اور وادی کشمیر میں سوائے پہاڑوں میں روپوش ہونے والوں کے کوئی ذی روح زندہ نہ بچا ۔


راجہ سہدیو اور اُسکا خاندان کارگل کی جانب بھاگ گیا تو فوج نے بھی حوصلہ ہار دیا۔ بیشتر سپاہ میدان جنگ میں ماری گئی اور بچ جانیوالے لوہر کوٹ کی گھایٹوں میں جا چھپے جہاں بھوک اور بیماریوں نے اُن کا خاتمہ کر دیا۔
ذوالچو خان تاتاری قتل عام کے بعد پچاس ہزار عورتوں اوربچوں کو غلام بنا کر نیلم کے راستے ترکستان کی جانب روانہ ہوا تو دیو سائی کے میدان میں برفانی طوفان نے اسکا راستہ روک لیا۔

ذوالچو خان کا لشکر قیدیوں سمیت برف کے طوفان میں گر کر ہلاک ہوا اور کوئی شخص زندہ نہ بچا ۔
ذوالقدار خان نے بدھ مت اور ہندو مت کے ماننے والوں کو تہہ تیغ کیا اور دونوں تہذیبوں کے آثار مٹا دیے ۔ نویں صدی عیسوی میں عروج حاصل کرنے والے دردوں کا بھی صفایا ہوگیااور دردستان اور بلورستان میں قائم ہونیوالی پٹولہ شاہی حکومتیں بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔


قصہ مشہور ہے کہ ذوالچو خان کا لشکر جب شاردہ کے علاقے سے گزرا تو مائی شاردہ کی درگاہ کی جانب سے ایک گونج سنائی دی جسے تاؤ بٹ سے لیکر دیو سائی کے مر غزاروں میں چھپے ہوئے لوگوں نے بھی سنا ۔ ذوالچو خان نے موسم بہار میں سفر کا آغاز کیاا ور اُسکا خیال تھا کہ برف باری کے موسم سے پہلے اُسکا لشکر بد خشاں سے آگے نکل جائیگا ۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جونہی خونخوار درندوں کا یہ لشکر شاردہ سے آگے چلا تو برف کے طوفان میں گرگیا۔

دیو سائی تک پہنچتے سارے لشکری واصل جہنم ہوئے اورکو ئی بھی شخص زندہ نہ رہا۔
ذوالچو کا طوفان ٹلا تو کشمیر میں بہت بڑا زلزلہ آیا جس نے باقی کسر بھی نکال دی ۔ جن قصبوں اور دیہاتوں میں سینکڑوں لوگ بستے تھے وہاں گنتی کے چند لوگ رہ گئے ۔ موجودہ گلگت اور بلتستان میں اس سے بھی کم آبادی بچ سکی۔ بعد کے ادوار میں تبت ، چین ، ایران اور وسطی ایشیاء سے نقل مکانی کرنیوالے لوگ ان علاقوں میں آبا د ہوئے جن کی نسلیں آج بھی شمال اور شمال مغربی کشمیر میں آباد ہیں۔


ذوالچو خان کی تباہی کے بعد سارے کشمیر میں کوئی حکمران نہ تھا۔ سہد یوتبت بھا گ گیا اور اُس کی فوجیں تتر بتر ہو کر دوسرے علاقوں میں جا چھیں ۔ زیادہ تر لوگ لوہر کوٹ اور جموں کے جنگلوں اور بیابانوں میں چلے گئے ۔ اسی دوران لداخ کے شاہی خاندان کا ایک فرد شہزادہ رنچن شاہ سرینگر آیا جس کے ہمراہ تین ہزار تبتی سپاہی اور دد ہزار کارکن تھے۔

ان لوگوں کی آمد کا سن کر جنگلوں میں چھپے لوگ بھی بستیوں کی جانب آئے اور تبتی سپاہوں اور ہنر مندوں کی مدد سے اپنے گھر اور کھیت آباد کیے۔
رنچن شاہ نے ساری ریاست کا انتظام سنبھالا اور نئے سرے سے ملک آباد کیا۔ رنچن شاہ نے رام چندر کی پری چہرہ بیٹی کو ترن سے شادی کی جو بعدمیں ملکہ کو ٹارانی کے نام سے مشہور ہوئی ۔
کشمیر پھر سے آباد ہو ااور رنچن شاہ حکمران بنا تو کشمیر میں پھر ایک روحانی انقلاب آیا۔

ترکستان سے تعلق رکھنے والے صوفی بزرگ حضرت عبدالرحمن بلبل شاہ شمال کی جانب سے کشمیر میں داخل ہوئے ۔ ایک صبح رنچن شاہ دریائے جہلم کے کنارے چہل قدمی کے لیے نکلا تو اُس کی ملاقات اس بزرگ ہستی سے ہوئی۔ ولی کی نگاہ بادشاہ کے دل پر اثر کر گئی اور وہ اُن کے ہاتھ پر دائر ہ اسلا م میں داخل ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اس روز جہاں جہاں بادشاہ کا پیغام پہنچا لوگوں نے کلمہ حق پڑھ لیا۔


رنچن شاہ نے اپنامسلم نام صد الدین بلبل شاہ رکھا اور کشمیر کا پہلامسلمان حکمران بنا۔ صد ر الدین دو سال سات ماہ تک کشمیر کا حکمران رہا اور 1327ءء میں انتقال کر گیا۔ انتقال کے وقت کوٹہ رانی کے بطن سے اُسکا بیٹا حیدر علی تھا جو کبھی تخت نشین نہ ہوا۔
صدرالدین کے بعد کوٹارانی نے سہدیو کے بھائی ا ودیان دیو کو تبت سے بلا کر تخت نشین کیا اور خود بھی اُس کی زوجیت میں چلی گئی ۔

اودیان دیوبرائے نام حکمران تھا جبکہ اصل حکمرانی کو ٹارانی کی ہی تھی ۔ ملک کے حالات سنبھلے ہی تھے کہ ترکستان سے اچکل نامی ترک جرنیل ایک لشکر لیکر کشمیر میں حملہ آور ہوا ۔ اچل نے چترال ، گلگت اور ملحقہ یاغستانی علاقوں میں قتل عام کیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ اچل کی خبر سنتے ہی اودیان دیوتبت بھاگ گیا مگر کوٹہ رانی نے سرینگر نہ چھوڑا۔

کوٹہ رانی نے سارے کشمیر کے راجگان کے نام خط لکھے اور انہیں غیرت دلائی کہ وہ کب تک بھا گ کر جنگلوں میں پنا ہ لیتے پھر ینگے ۔
کوٹا رانی نے لکھا کہ مفروروں ، غلاموں ، بزدلوں اور بھگوڑوں کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ کوٹا رانی نے اپنے خطوط میں للتادت ، اونتی ورتن اور صد الدین کی مثالیں دیکر اہل کشمیر کی جرات اور غیرت کو للکارا تو راجگان نے میدان جنگ میں مرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ذہین اور شاطر ملکہ نے ایران سے ہجرت کر کے کشمیر آنیوالے ایک دانا شخص شاہ میر کو سپہ سالار مقرر کیا جس کی حکمت عملی کے تحت کشمیری میدان جنگ میں اترے تو اچل کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ ہزاروں ترک میدان جنگ میں کام آئے اور بہت سے قیدی بنالیے گئے۔
کوٹا رانی نے فتح کے بعد ایک بار پھر اودیان دیو کوتبت سے بلا کر تخت نشین کیا ۔ کچھ عرصہ بعد اودیان دیومر گیا تو کوٹہ رانی نے اپنا دارالحکومت سرینگر سے اندر کوٹ منتقل کر دیا۔

اس سے پہلے کہ وہ کوئی چال چلتی شاہ میر نے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا اور کوٹہ رانی کو اپنی زوجیت میں لے لیا ۔ کوٹہ رانی نے اسلام قبول نہ کیا تھا اور نہ ہی اُسے شاہ میر کی رفاقت پسند تھی ۔ کہتے ہیں کہ شادی کی رات کوٹہ نے خود کشی کرلی اور اس طرح کشمیر سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔
شاہ میر سے لیکر یوسف شاہ چک تک کشمیر پر مسلم حکمران حکومت کرتے رہے۔

آخر کا ر چک خاندان کی ریشہ دوانیوں اور نااہلیوں کی بناء پر مغلوں نے کشمیرپر قبضہ کر لیا۔ مغلوں ، افغانوں ، سکھوں ، اور ڈوگروں کے ادوار میں کشمیر میں بغاوتیں ہوتی رہیں اور لوگ آزادی کی تڑپ میں مرتے رہے اور قابض حکمرانوں کو بھی خون کے آنسو رولاتے رہے۔ ڈوگروں کی سو سالہ حکمرانی پر تشدد رہی اور ڈوگرہ حکمران کبھی بھی عوام کا اعتماد حاصل نہ کر سکے۔

یہ دوسری بات ہے کہ کچھ مسلمان جاگیرداروں اور معمولی عہدوں کی طلب والے خاندانوں نے ڈوگروں کے ہا تھ مضبوط کیے اور اپنوں سے غداری کے مرتکب ہوئے ۔ ایسے ہی غداروں میں ایک نام شیخ عبداللہ کا بھی ہے جسے اپنے لاہوری رشتہ داروں اور سسرالیوں فیض احمد فیض ، ایم ڈی تاثر اور دیگر سوشلسٹوں اورکیمونسٹوں کی بھر پور حمائیت حاصل تھی۔ یہی لاہوری سوشلسٹ گروپ تھاجنہوں نے شیخ عبداللہ کو معمار پاکستان قائد اعظم  کیساتھ بد کلامی پر اُکسایا ۔

غدار عبداللہ نے قائداعظم کے دورہ سرینگر کے دوران لغو اور بازاری زبان استعمال کی اور آپ کی ذات پر حملے کیے ۔ یہ قائداعظم  کاظرف تھا کہ آپ نے غدار عبداللہ کے بہودہ کلام کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا ۔ آپ نے چوہدری غلام عباس اور مسلم کانفرنس کے قائدین کے نام خطوط میں واضح کیا کہ عبداللہ کانگریس کا ایجنٹ ہے اور قابل بھروسہ نہیں ۔ اس کی کسی شعبدہ بازی میں نہ آیا جائے۔

یہ شخص کشمیر ی قوم کو دھوکہ دیگا اور کانگریس کی ایماء پر کشمیریوں کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کردے گا۔
آج قائداعظم کی باتیں کھل کر سامنے آچکی ہیں۔ شیخ عبداللہ نے پہلے کشمیری سیاسی قیادت کو دھوکہ دیا اور مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل کر اور کانگریس سے ملکر کشمیر یوں کی رائے کے خلاف کانگریسی منشور کے تابع ہوگیا۔ چوہدری غلام عباس اور دیگر کو جب احساس ہوا تب تک کشمیری کو نا قابل تلافی نقصان ہو چکا تھا۔


غدا رعبداللہ کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے نہ صرف مسلم کانفرنس دو حصوں میں بٹ گئی بلکہ کشمیری بحیثیت قوم نظریاتی اور سیاسی سطح پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے جس سے غدار عبداللہ اور کانگریس کا مشن تقریباً مکمل ہو گیا ۔ آج جوکچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری خود کشمیر یوں اور اُن کے قائدین پر عائدہوتی ہے۔ 1947ء سے 1950ء تک کیا ہوا اور کس نے کیا رول ادا کیا یہ ایک الگ اور درد نا ک کہانی ہے جسکا تفصیلی ذکر میں اپنی کتاب" کشمیر کا المیہ "میں کرونگا ( انشاء اللہ )
جنگ آزادی کشمیر کو نا کام بنانے اور پھر اس جنگ کے لیے آنیوالے مال و اسباب پر ہاتھ صاف کرنیوالے کون تھے ؟اس سے پردہ اٹھانا بھی ضروری ہے۔

کشمیری قوم یہ جاننے کا حق بھی رکھتی ہے کہ پونچھ شہر کا محاصرہ کرنیوالے تین سدھن بریگیڈ، ایک ریگولر بریگیڈ اورد و قبائلی بریگیڈ اٹھارہ ماہ تک کیا کرتے رہے اور صرف ایک بٹالین ڈوگرہ فوج کو پونچھ سے کیوں نہ نکال سکے۔
قوم کو یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کا نام انقلاب پونچھ نہیں ۔ راولاکوٹ ، پلندری اور باغ میں نہ توکوئی فوجی چھاونی تھی اور نہ ہی ڈوگروں کی جانب سے ان علاقوں پر کوئی بڑی فوجی کارروائی ہوئی۔

اس میں شک نہیں کہ دیگر علاقوں کی طرح ان علاقوں کے لوگ بھی ڈوگرہ فوج اور پولیس سے ٹکرائے مگر کیپٹن حسین خان شہید کے بعد آگے کچھ نہ ہوا بلکہ دس ہزار مربع میل مجاہدین کا فتح کیا ہوا علاقہ بریگیڈ ئر وحید جیسے بزدل افسروں نے خالی کرد یا جس پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔
قبائلی جتھوں کی ایک الگ کہانی ہے۔ یہ جتھے جموں کی طرف کیوں نہ گئے اور سرینگر کی جانب آکر وہاں پونچھ بریگیڈوں کی طرح کیوں بیٹھ گئے ؟اس سوال کا جواب بھی ضروری ہے۔

الفرقان بریگیڈ جموں سیالکوٹ روڈ پر کیوں بیٹھا رہا اور اُس کی موجودگی میں سانحہ جموں کیوں ہوا؟ کیا یہ دن صرف تقریر یں کرنے کے لیے ہے۔ آخر کسی کشمیری دانشو اور نام نہاد لیڈر کو اتنی ہمت کیوں نہیں کہ وہ اس پر سوال اُٹھائے ۔ ستر سال سے آزادکشمیر پر قابض حکومتیں ، لیڈر اور دور حاضر کے سیاسی ڈیلر اور ان کی کارکردگی اور لوٹ مار بھی اس بات کی متغازی ہے کہ ان سب کے چہروں سے نقاب اُٹھا یا جائے جو منقسم کشمیری قوم کو برادریوں میں بانٹ کر سیاسی دکانداری اور چور بازاری کا دھندہ کر رہے ہیں۔


یوں تو آزادی بزنس میں ہر سیاسی جماعت کا حصہ ہے مگر کانفرنسوں ، سیمناروں اور لیکچروں کا الگ بزنس ہے۔ اس سال یورپ اور امریکہ میں حسب سابق یہ کانفرنسیں برادری اور پارٹی سطح پر منعقد ہوئیں اور نام نہاد کشمیری قیادت نے یورپ میں دعوتیں اڑائیں اور دیگر خرافات سے لطف اندوز ہو کر واپس چلے گئے ۔
کشمیر کونسلیں اور کشمیر کانفرنسیں منعقد کرنے کا مقصد نہ تو تحریک آزادی کشمیر کوتقویت دینا ہے اور ہی یورپ میں مقیم کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن کو غلامی کی وجوہات اور اُن سے نجات کے متعلق کچھ بتانا ہے۔

یہ کانفرنسیں کشمیری تارکین وطن کو برادریوں میں تقسیم کرنے ، نفرت کے بیج بونے اور تعصب پھیلانے کا ایسا جال ہے جس میں کشمیریوں کی اکثریت پھنس چکی ہے ۔ آزادکشمیر سے آنیوالے سیاسی ڈیلر بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی برادری کے کتنے نا اہلوں اور جاہلوں کو سرکاری نوکریاں دے کر آزادکشمیر کے انتظامی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے ۔ کتنے سکول اور کالج بنا کر جعلی ڈگریوں والے پارٹی ورکروں اور غنڈوں کو تعلیم کا بیڑہ غرق کرنے کا سامان مہیا کیا ہے۔

چونکہ سکولوں اور کالجوں میں نہ تو طالب علم ہیں نہ تعلیمی سہولیات ہیں ۔ جو اُستاد تعینات ہوئے ہیں اُن میں اکثریت کا اپنا کردار بھی مشکوک ہے۔ ننانونے فیصد نے کراچی سے جعلی ڈگریاں خرید رکھی ہیں یا پھرنجی یونیورسٹیوں میں دوسرے لوگوں کو بیٹھاکر ڈگریاں حاصل کی ہیں۔
آزاد کشمیر کے ایک نامور سیاستدان کے پاس کراچی بورڈ میٹرک پارٹ ون کی مارکس شیٹ ہے مگر الیکشن کمیشن نے کبھی اُن سے پارٹ ٹو کی مارکس شیٹ یا سند طلب نہیں کی۔

لیڈر صاحب سندھی ادب کے اسقدار مدح ہیں کہ سب سے زیادہ نمبر سندھی زبان وادب میں حاصل کر رکھے ہیں ۔ سنا ہے کہ وہ شاہ جورسالو اور چج نامہ کا پہاڑی زبان میں ترجمہ کر نے اور سندھ پر کشمیری راجگان کی حکمرانی پر ریسرچ کا اردہ بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے ایک اور وزیرنے تو دو ہاتھ آگے بڑھ کر وادی نیلم سے آثار قدیمہ کی کھدائی کروائی اور صدیوں پرانے ثقافتی خزانے کو نکا ل کر غائب کر دیا۔

وادی نیلم کے لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا تو وہاں سے بھی انصاف نہ ملا۔ موصوف نے نمونے کے طور پر پتھر کا بنا ایک کنڈا یعنی کسی دیوی کے اشنان کرنے والا ٹب واپس کیا جو کچھ عرصہ پہلے تک مظفرآباد کے سول ہسپتال میں پڑا تھا۔
یورپ اور امریکہ میں سینکڑوں کشمیرکونسلیں برادری ازم کے مراکز ہیں جہاں کسی دوسری برادری کا داخلہ ممکن نہیں ہوتا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو قمر زمان کائرہ اپنے برادری کے ہیرو بن کر سامنے آئے۔ موصوف صرف آزادکشمیر میں ہی نہیں بلکہ مقبوضہ مینڈھر ، راجوری اور ریاسی تک مشہور ومقبول ہیں۔
کیا کوئی کشمیری لیڈر کا ہر ہ صاحب ے پوچھنے کی ہمت کر سکتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں تو آگ لگی ہے مگر مقبوضہ پونچھ جہاں اُن کی پوسٹر لگتے ہیں میں خاموشی کی وجہ کیا ہے ۔

کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ مقبوضہ پونچھ میں اُن کی مقبولیت کی کیا وجہ ہے اور اُن کے چاہنے والے کانگریس اور بی جے پی کو کیوں ووٹ دیتے ہیں ۔ کیا وہ زرداری صاحب کے اس بیان پر عمل پیرا تو نہیں کہ مسئلہ کشمیر کو تیس سال کے لیے منجمد کر دیا جائے۔ یورپ اور امریکہ میں منعقد ہونیوالی کشمیر کانفرنسوں میں دونوں جانب کی برادریوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور آرپار اہم پیغامات بھجوائے جاتے ہیں ۔

خاصکر مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے نام نہاد انتخاب کے دوران آزادکشمیر اور پاکستان میں بیٹھے برداری چیف اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ جس پر کسی سرکاری ادارے کی نظر نہیں ۔
اس سال اسلام آباد میں دو کشمیر کانفرنسیں منعقد ہوئیں اور دونوں کانفرنسوں میں وہی لوگ جلوہ افروز ہوئے جو کئی دیہائیوں سے کشمیری قوم کو جھوٹی تسلیاں دیکر اپنی دکان چمکائے ہوئے ہیں۔ ان کانفرنسوں میں نئے سازوں پر پرانے گیت سنائے گئے اور سننے والوں نے حسب سابق داد دیکر چائے پانی حلال کیا۔(اس کانفرنس کی تفصیل اگلے کالم میں) ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :