تنہائی

بدھ 25 مارچ 2020

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

آج کی زندگی کا المیہ تنہائی ہے ۔ آج کا انسان وقت کے وسیع و لا محدود سمندر میں ایک جذیرے کی طرح تنہا ہے ۔ ہم سب جزیرے ہیں۔ ایک دوسرے کے آس پاس، لیکن ایک دوسرے سے ناشناس۔۔۔ایک دوسرے سے بے خبر، ایک دوسرے سے اجنبی اور اپنے آپ سے اجنبی۔ کروڑوں افراد ہجوم در ہجوم اور سارے تنہا۔ انسانوں کی بھیڑ ہے ،انسانوں کا میلہ ہے، لیکن ہر انسان اکیلا ہے۔

ہم سب اپنے اپنے مفادات اور مقاصد کے تعاقب میں ہیں۔ہم اپنی غرض اور خود غرضی کے غلام ہیں۔ کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ سب کامیابی کے پجاری ہیں۔”کامیابی“آج کے انسان کا مسجود ہے۔ کامیابی، جو حاصل نہیں ہوتی۔۔۔ایک خوبصورت تتلی، جو اڑتی ہے اور لوگ بچوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں، اپنوں سے اور اپنے آپ سے۔

(جاری ہے)

ہم سب بہت زیادہ مصروف ترین ہیں۔ہمیں بڑے کام کرنے ہیں،ہم بہت ہی خواہشات رکھتے ہیں، ہم بڑی اذیت میں ہیں۔ ہم سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم آرام وسکون کر سکیں۔ سکون کی تلاش میں ہم بے سکون ہیں۔آرام کی تمنا ہمیں بے آرا م کر رہی ہے ۔محفلوں کی آرزو ہمیں تنہائی تک لے آتی ہے ،دل بجھ جائے ، تو شہر تمنا کے چراغاں سے خوشی حاصل نہیں ہوتی، ہم تیری میں ہیں۔

ہم جلدی میں ہیں،ہم جمع کرتے ہیں، مشکل وقت کیلئے پس انداز کرتے ہیں اور پھر مشکل وقت کا انتظار کرتے ہیں اور وہ مشکل وقت ضرور آتا ہے۔ ہم جلدی میں ہیں۔ہم تیر رفتار ہیں، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خاہش میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بھائی بھائی میں مقابلہ ہے، بھائی بھائی الگ ہیں، ماں باپ سے بچے دور ہو رہے ہیں، بہن بھائیوں سے دور ہو رہی ہے، مقابلہ کرنے کی خواہش معاون سے محروم کر دیتی ہے، ہم صرف اپنے لئے زندہ ہیں۔

اپنی ذات میں گم، اپنے اپنے سفر پر گامزن۔ آسمان کے کروڑوں ستاروں کی طرح اپنے پانے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ آدمی آدمی سے اجنبی ہو رہا ہے ۔ یہ اجنبیت تنہائی میں اضافہ کر رہی ہے۔پہلے دور میں اساتذہ کرام کی بہت زیادہ عزت و احترام ہوا کرتا تھا لیکن آج کل کے طالب علم اور طالبہ دونوں میں وہ تمیز ہی ختم ہو گئی ہے کہ ایک استاد کا مقام پہچان سکیں اور اس کی عزت و قدر کریں۔

ہمارے اندر درندگی اور فحاشی اتنی عام ہو چکی ہے کہ ایک دوسرے کو ہم ہلاک کرتے جا رہے ہیں، قتل و غارت ہر جگہ پر عام ہوتی جا رہی ہے ۔ وسائل کی نا ہموار تقسیم محرومیاں پیدا کر رہی ہے ۔ ہم اپنے آپ کو زندگی سے محروم کرتے جا رہے ہیں۔ ظاہر کی کامیابیاں اندر کی گھٹن کب تک چھپائیں گی۔ اندر کا انسان سسک رہا ہے ، بلک رہا ہے ۔ ہم اس کی آواز سنتے ہیں، لیکن اپنے کانوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے، ہم اپنے باطن کو ہلاک کر کے کمرانیوں کے جشن مناتے ہیں۔

ہم اپنے روحانی وجود سے فرار کر رہے ہیں ۔ہم نے کئی چہرے رکھے ہوئے ہیں ، آج کل تو ہر عام آدمی نے بھی کم سے کم دو چہرے تو ضرور رکھے ہوئے ہیں جو کہ کسی بھی وقت دوسرے کو دھوکہ دے دیتا ہے جب اُس کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا ہے۔ ہمار ے غم اور ہماری خوشیاں میکانکی ہیں، ہم ہمدردی سے نا آشنا ہیں۔ہم اپنے اندر کی آواز کو خاموش کرا دیتے ہیں اور پھر ضمیر کے کسی دباؤ سے آزاد ہو کر ہم اپنی تنہائی کے سفر پر روانہ رہتے ہیں۔

ہماری زمین خطوں، علاقوں اور ملکوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک ایک انچ تقسیم ہو چکا ہے ۔قوموں کیلئے ممالک ہیں، لیکن انسان کیلئے کوئی خطہ نہیں۔ انسان اکیلا ہے ،محروم ہے اپنی خلافت ارضی سے پہاڑ، دریا، سمندر سب تقسیم ہو چکے ہیں۔انسان کیلئے صرف آسمان ہی باقی رہ گیا ہے ۔ انسان خود قوموں میں بٹ چکا ہے ،اپنے اسلاف سے کٹ چکا ہے ، اپنے منصب سے ہٹ چکا ہے ۔

تنہائی روح کی گہرائی تک آپہنچی،ہماری روحیں ایک دوسرے کے قرب سے محروم ہیں۔ روحیں محبت کی پیاسی ہیں۔انسان ، انسانی اقدار سے بے حس ہے،احساس مر چکا ہے ۔کوئی کسی کیلئے کچھ بھی نہیں چاہتا نہ کسی کیلئے آج کل کوئی کچھ کرتا ہے ۔ہم ایک دوسرے کو بردارشت کررہے ہیں، تسلیم نہیں کرتے۔ ہم اذیت میں ہیں، ہمیں اپنے علاوہ کوئی چہرہ پسند ہی نہیں آتا ۔

ہم مفادات کے پجاری بھول گئے ہیں کہ زندگی ھاصل ہی نہیں، ایثار بھی ہے ۔ ہم اپنی فکر کو فکر بلند سمجھتے ہیں اور اپنے عمل کو عمل صالح۔ہم نہیں جانتے کہ ہم کتنے کمزور ہیں۔ہم اس چراغ کی طرح ہیں، جو آندھیوں کی زد میں ہے۔ لیکن ہمارا صل روپے تنہائیوں میں ہے ۔ہماری حقیقت تنہائی اور خاموشی میں ہے۔ہماری محفلیں مسکراتی ہیں اور تنہائیں روتی ہیں۔

ہمارے دن سورج کے ساتھ گزرتے ہیں اور رات سناٹوں میں،مہیب خاموشی اور مکمل تنہائی،جب ہم اپنی اصل شکل دیکھتے ہیں ،ہم پہچان نہیں سکتے کہ ہم کون ہیں؟ہمارا قیام عارضی ہے،ہمارے منصوبے نا پائیدار ہیں۔ ہمارے عزائم ،ناقابل حصول ہیں۔ ہم اپنے دام میں ہیں اور یہی تنہائی کا سبب ہے۔ جب ہم کسی کے نہیں، تو ہمارا کون ہو گا؟ ہم زندگی کا سفر بھی تنہا شروع کرتے ہیں اور انجام کار تنہا ہی ختم کرتے ہیں۔

نہ کوئی ہمارے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی ہمارے ساتھ مرتا ہے ۔ہمارے اجتماعات ضرورت کے ہیں اور ضرورتیں وفا سے نا آشنا ہوتی ہیں اور جب تک وفا نہ ملے،تنہائی ختم نہیں ہوتی۔آج کا انسان، انسانی نظروں سے گر رہا ہے ۔انسان، انسان کے دل سے دور ہو گیاہے۔آسمانوں سے راستہ لینے والا دل کا راستہ نہیں معلوم کر سکا۔ انسان ، انسان کا مطالعہ چھوڑ کر کائنات، دریافت کرنے چلا ہے اور کائنات کی عظیم و لا محدود وسعتوں میں تنہائیوں کے سوا کیا ملے گا؟ رفاقتوں سے محروم انسان بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سب سے بڑی بیماری تنہائی بذات خود ہے یہ بیماری بھی ہے اور عذاب بھی!۔

آج کے انسان کی روح میں تنہائی کا زہراتر چکا ہے ۔انسان کے اعمال اس کیلئے تنہائی کا عذاب لکھ چکے ہیں۔ تنکی دنیا کا پجاری من کی دنیا سے محروم ہو کر تنہا رہ گیا ہے۔ انسان انسان پر ظلم و زیادتی کر رہا ہے ۔بڑی قومیں چھوٹی قوموں کو نگل رہی ہیں۔انسانوں کی خدمت کے نام پر انسان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ غریب نوازیوں کے نام پر غریب کشی ہو رہی ہے۔

امن کے نام پر جنگ کا الاؤ روشن ہو رہا ہے ۔انسان انسان سے خوفزدہ ہے ۔انسان اپنے آپ سے گریزاں ہے۔ طاقتور کے قصیدے ہیں، اور ظلم کے ہاتھ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ سپر طاقتیں انسانوں کی تباہی سے منصوبے بنا چکی ہیں۔ہمارے پاس آسائشیں ہیں اور سکون میسر نہیں ہے۔ ہمارے پاس مال و اسباب ضرور ہے مگر اطمینان نہیں ہے۔ ہم سب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ لیکن منزلیں جدا جدا ہیں۔

ہم ہجوم میں ہیں،لیکن ہجوم سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم ایسے دوسرے کے آس پاس ضرور ہیں، ایک دوسرے کا غم بھی ضرور سنتے ہیں مگر محسوس نہیں کرتے۔ ہم اپنے علاوہ کسی کو اپنے جیسا سمجھتے ہی نہیں۔ ہمیں آج کل صرف اپنے آنسومقدس نظر آتے ہیں، لیکن دوسروں کی آنکھ سے ٹپکنے والے آنسو ہمیں مگر مچھ کے آنسو نظر آتے ہیں۔آج کل کتابیں بہت زیاد ہیں ، علم کا سمندر پھیل چکا ہے لیکن اُس کو نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اُس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

امیر ، امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب ، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے، انسانیت کا نام و نشان بھی ختم ہوتا جا رہا ہے اور احساس نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آتی ، آج کل کے مسلمان بھی صرف نام کے مسلمان ہیں مگر ان میں مسلمانوں کا احساس ، جوش و جذبہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ہماری تنہائیوں پر رہم فرما میرے مولا ۔۔۔ہمیں انسان آشنا کر۔

۔۔ہمیں انسانوں کی قدر کرنا سکھا۔ ہمیں انسان سے محبت و الفت کرنا سکھا۔ ہمیں دکھی انسانوں کا سہار بننے اور مدد کرنے والا بنا۔ہمیں اپنی پہچان عطا فرما۔ ہمیں زندگی کی عزت کرنا سکھا۔ ہمیں ہمارے غرور و تکبرو غمنڈ سے بچا۔ ہمیں ہماری ذات سے نجات دے۔ ہمیں وفا سکھا، وفا کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ ہمیں صداقت فکر اور سمجھ دے۔ ہمیں ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں ایک دوسرے پر بھروسہ و اعتماد کرنا سکھا، ہمارے ظاہرو باطن سے شکوک و شبہات دور کر،ہماری تنہائیوں کو آباد کر محبت سے، ہمیں ایک عقیدہ دیا ہے، تو ایک منزل عطا فرما۔

۔۔ایک سفر، ایک منزل یک وحدت۔۔۔
اپنی محفل میں مجھے بُلوا کے دیکھ
یا مری تنہائیوں میں آ کے دیکھ
میں تری تاریخ ہوں مجھ کو نہ چھوڑ
بھولنے والے مجھے دہرا کے دیکھ
دُعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سبھ کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :