آج کل کا ہمارا معاشرہ ۔۔۔اور پرانا زمانہ

پیر 11 اکتوبر 2021

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

پرانے زمانے کے دورمیں مردوخواتین بہت سادہ اوربھولے بھالے ہواکرتے تھے۔دیہاتوں/گاؤں کے لوگ بہت زیادہ مہمان نواز ہوتے تھے ۔اور لوگوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ شہروں کے لوگوں میں بھی بہت لوگ سلجھے ہوئے تھے اور لوگوں کی اچھی، پہچان رکھتے تھے لوگوں کی عزت و احترام کرتے تھے۔عورتیں سادہ لباس زیب تن کرتی تھیں، مرد پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار تھے۔

وقت پر سوتے اور جاگتے تھے۔ لوگ پڑھے لکھے کم اور سلجھے ہوئے زیادہ تھے اور بہت زیادہ سمجھدار تھے۔ وقت پر کام کاج کرتے تھے،اپنی خوراک اور صحت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ عورتیں پردہ دار اور اپنے شوہروں اور صرف گھر کی زینت اور شوہروں کی فرمانبردار ہوتی تھیں۔ زیادہ تر سفر پیدل طے کرتے تھے جو تھوڑے امیر لوگ ہوتے تھے وہ اُونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے تھے،کسی کے ساتھ دھوکہ بازی، فریب ،مکاری اور بے ایمانی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی چیز کے ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔

(جاری ہے)

سچ بولنے کے عادی تھے،ایک دوسرے کے پاس بیٹھنا بڑے لوگوں کا شیو ا تھا اور ایک دوسرے کا دُکھ درد بانٹتے تھے،لوگوں پر بہت زیادہ اعتماد، بھروسہ اور یقین رکھتے تھے اپنی امانتیں ایک دوسرے کے پاس بے فکری سے رکھ دیتے تھے۔پھل اور سبزیاں تازہ استعمال کرتے تھے،اور لوگ مہلک امراض میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔عورتیں غیر محرم مردوں سے پردہ کی سخت پابند تھیں۔

صبح کی سیر کرنا دیہات والوں کا اکثر معمول ہوتا تھا تبھی لوگ صحت مند، تندرست اور زیادہ عمر والے تھے۔۔۔لیکن !۔۔۔۔بد قسمتی سے آجکل کا موجودہ دور میں لوگ خود غرض اور مطلبی ہیں۔ تعلیم بہت زیادہ عام ہو چکی ہے اور اسلام بھی بہت زیادہ دُنیا کے ہر کونے میں پھیل چکا ہے اس کے با وجود فیشن مردوں اور عورتوں کا رواج بن چکا ہے ۔ عورتیں لباس اس طرح کا زیب تن کرتی ہیں کر مرد حضرات خود شرم محسوس کرتے ہیں، کپڑے بالکل باریک جس سے سارا جسم اور ہر اعضاء مکمل طور پر واضح نظر آتا ہے ۔

عورتیں گھروں کی بجائے بازاروں،مزاروں کی زینت بن کر رہ گئی ہیں۔ مغربی تہذیب جنم لے چکی ہے جیسے وہاں بہن، بھائی ،ماں ،باپ کے رشتہ میں کوئی تمیز نہیں اسی طرح کا ہمارا اسلامی معاشرہ بنتا جا رہا ہے ،اور اکثر تو بن چکا ہے۔ پردہ کرنا عورتیں اپنی توہین سمجھتی ہیں ۔حالانکہ عورت کا مطلب پردہ میں رہنے والی چیز کا نام ہے۔ حالانکہ اسلام پردہ کی سخت پابندی کا حکم دیتا ہے کہ غیر محرم مردوں میں اُن کا جسم نہ آئے اور اسلام نے عورت کو ایک اچھا مقام دیا ، پہلے لوگ عورتوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے پر آج عورت ”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے لگاتی ہے ۔

اسلام سے بڑھ کر دنیا میں کسی مذہب نے عورت کو عزت نہیں دی۔ مردوں سے بد تمیزی سے پیش آتی ہیں اور بدسلوکی کرتی ہیں، زبان درازی کرتی ہیں اور اس کے برعکس مرد بھی اتنا ظالم اور بے بس بن چکا ہے کہ ماں، بہن، بیوی، بیٹی کی تمیز نہیں رہی۔ زنا، چوری، جھوٹ، شراب خوری، والدین کی نا فرمانی، قتل و غارت، ناپ تول میں کمی، حسد، بغض، کینہ، چغلی، نمازکی پابندی نہ کرنا،ایسی بہت سی برائیاں اور بیماریاں ہمارے آجکل کے موجود ہ دور میں جنم لے چکی ہیں۔

رات کو لیٹ تک موبائل ،ٹی وی، ڈش وغیرہ کا استعمال کر کے صبح لیٹ اُٹھنا،نہ دین کی نہ ہی نماز کی فکر۔اور کام کرنا تو صرف پیسے اور دنیا کے لالچ میں جیسے کہ تا حیات اسی دنیا میں رہنا ہے ۔ یہ دنیا فانی ہے جو چیز بنتی ہے ، وہ ایک دن ضرور ٹوٹ جاتی ہے یہ زندگی ایک عارضی زندگی ہے۔ اپنے آپ کی اور اپنے اعمال کی فکر کریں۔ آجکل کی سبزیاں، پھل سب سپرے والی ، ادویات کے استعمال والی ،جس سے طرح طرح کی مہلک امراض پیدا ہو چکی ہیں،یہاں تک کہ کوئی چھوٹی بیماری بھی لگ جائے تو انسان کو ختم کر دیتی ہیں۔

آجکل لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے ضمیر ہیں،انسانیت اندر سے مردہ ہو چکی ہے لوگوں کا احساس ختم ہو چکا ہے ، امیر لوگ چھوٹے اور غیروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے، نہ کسی پڑوسی کا خیال، نہ کسی رشتہ دار کا خیال اور نہ ہی کسی یتیم ،مسکین کا خیال کہ اُس نے ایک وقت کی روٹی بھی کھائی ہے یا نہیں۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے ، زمانہ خراب نہیں وقت تو پہلے بھی یہی تھا، دن ، رات، چاند، ستارے، سورج، ہفتے، مہینے، سال، عیدیں،خوشیاں، غمیاں سب کچھ تھا پر آجکل کے لوگ زیادہ پڑھ گئے ہیں اس لیے انسانیت کا احساس اور اپنی تخلیق کا مقصد ہی بھول گئے ہیں۔

لوگ بُرائی ایسے کرتے ہیں اور پھر لوگوں کو اپنے کرتوت بتاتے ہیں جیسا کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہو بُرائی کو برائی ہی نہیں سمجھتے بجائے شرمندگی اور توبہ کرنے کے لوگوں تک بتاتے ہیں۔ آجکل ٹیکنالوجی بہت تیزی سے پھیل چکی ہے اور پھیل رہی ہے آرام وسکون کی ہر چیز دستیاب ہے ۔ انسان خود غرض اور لالچی ہو چُکا ہے ، پیسے کی حوس میں اپنی جوانی برباد کر رہا ہے ۔

ہمارے پاس دن میں پانچ وقت موذن آزان دے کر پکار رہا ہے آؤ فلاح اور کامیابی کی طرف ہم وہ راستہ چھوڑ کر گمرائی کے راستے پر چلے ہوئے ہیں ،اپنی قبر اور حشر کی کوئی پرواہ اور فکر ہی نہیں ہے۔نہ کوئی عذاب قبر کا ڈر اور نہ عذاب الٰہی کا ڈر۔ اکثر لوگ تو ایسے ہیں کہ اُن کو نیکی کی باتیں سنے بھی صدیاں بیت گئیں ہوں، نہ ہی کوئی نیک عمل کرنے کا کوئی وقت ان کے پاس ہے۔

اے بنی آدم !۔۔۔اللہ پاک کا شکر ادا کرو، مصیبت میں نماز کے ذریعے اس نے مدد مانگوکہ اُس نے آپ کو بے عیب اور ایک خوبصورت انسان بنایا ہے ،اپنے بنانے والے کی قریب ہو کر اُس کی مدد چاہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ یاد رکھیں بُرائی ہو جاتی ہے وقتی لذت انسان کو اُس گناہ میں اندھا کر دیتی ہے پر خود کی پہچان کرو کہ مسلمان ہو اور اُس ذات سے ڈرو جس کے سامنے جانا ہے اپنی فکر کرو،لوگوں کو اچھی باتیں بتاؤ، نیک راستے پر چلو، خود کی سوچ کو تبدیل کرو تاکہ ہمارا معاشرہ پہلے جیسے لوگوں جیسا بن سکے۔

نیک دُعاؤں ،تمناؤں کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال  نے خوب ارشارد فرمایا!
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
جس کو نہ ہو شوق اپنی حالت کے بدلنے کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :