انتظار۔۔۔

جمعہ 27 مارچ 2020

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

خواہش اور حصول کے درمیانی فاصلے کو انتظار کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہنا درست ہے کہ تمنا ہی انتظار پیدا کرتی ہے ۔ جس دل میں تمنا نہ ہو، اسے انتظار کے کرب سے گزرنے کا تجر بہ نہیں ہو سکتا۔ چونکہ کوئی انسان تمنا سے آزاد نہیں، اس لئے کوئی انسان انتظار سے نجات نہیں پا سکتا۔ ہم سب انتظار میں ہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی شے کا انتظا رہے۔

کسی نہ کسی سے ملنے کا انتظار ہوتا ہے۔ کسی واقعہ کا انتظار ہوتا ہے۔ انتظار تاریکی میں روشنی کا سفر طے کرتا رہتا ہے۔ شب فراق صبح اُمید کے انتظار میں کٹتی رہتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ زندگی کٹ جائے اور شب انتظار نہ کٹے۔ دیکھی ہوئی صورت کو دوبارہ دیکھنے کی آرزو انتظار کی بیتابیوں سے گزرتی ہیں۔ آرزو، ممکن ہو یا نا ممکن، انتظار ، آرزو کا مقدر ہے۔

(جاری ہے)

انتظار ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس سے گریز ممکن نہیں ہے۔ ہر عمل اپنے نتیجے کے انتظار میں ہوتا ہے۔ عمل نہ ہو، تو ارادہ ہی انتظار میں داخل کر دیتا ہے۔ ہمارے ارادے، ہماری آرزوئیں، ہماری تمنائیں،ہمارے عزائم اپنے نتائج کی خوبصورت شکل دیکھنے کو ترستے ہیں۔اسی کا نام انتظار ہے۔ نیک انسان اپنے اعمال کا انعام حاصل کرنے کیلئے منتظر رہتے ہیں اور بُرے آدمی برائی کی عبرت سے بچنے کا انتظار کرتے ہیں۔

جو انسان کسی عاقبت کا قائل نہیں، اس کیلئے اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ ”تم ایک فیصلے کے دن کا انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔“محبت کی تمام عمر انتظار کی حدت اور شدت سے گزرتی ہے۔ انتظار ہی قلوب کو گلنار کرتا ہے۔ ہم اپنے انداز سے ہی اپنے انتظار کی منزل طے کرتے ہیں۔ کچھ لوگ انتظار سے بڑے اضطراب میں گزرتے ہیں۔ وہ روتے ہیں، بلکتے ہیں، کراہتے ہیں، گنگناتے ہیں، تارے گنتے ہیں اور یادوں کے چراغ روشن کرتے ہیں۔

وہ دیارِ جاں میں جشن آرزو منانے کیلئے اشکوں سے چراغاں کرتے ہیں۔ خاموش تصاویر کی آوازیں سنتے ہیں اور اپنی شب تنہائی میں اپنے علاوہ وجود کو بھی موجود پاتے ہیں۔ ان کا خیال تجسم ہوتا ہے۔ ان کوماضی کے ہم سفر، مستقبل کی مسافرت میں شامل نظر آتے ہیں۔ یہ واہمہ انہیں حقیقت نظر آتا ہے۔ اس طرح انتظار کے زمانے طلسمات کے زمانے بن جاتے ہیں۔ انتظار پیدا کرنے والی کوئی بھی شے ہو، جب انتظار پیدا ہو جائے تو صاحب انتظار کے ساتھ اس کے ظرف کے مطابق واقعات شروع ہو جاتے ہیں۔

کچھ لوگ انتظار کی شدت سے تنگ آکر چراغ آرزو بجھا دیتے ہیں ۔ وہ اُمید سے نکل کر مایوسی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی پر بھروسہ نہ کرتے۔ انہیں اپنے نصیب پر بھی بھروسہ نہیں رہتا۔ وہ گلہ کرتے ہیں، شکایات کرتے ہیں، مایوسیاں پھیلاتے ہیں۔انہیں شب فرقت کی تاریکی تو نظر آتی ہے، اپنے دل کا نور نہیں نظر آتا ۔ وہ اپنے جدا ہونے والے محبوب کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرھ اپنی شب انتظار کو کم نصیبی سمجھ کر بے حس اور جامد ہو جاتے ہیں۔

ظاہر سے محروم ہو کر وہ باطن سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح بربادی دل و بربادی ہستی بن کر انہیں تباہی کی منزل تک لاتی ہے۔ جس شخص میں ایثار نہ ہو، اسے انتظار تباہ کر دیتا ہے۔ جس انسان میں وفو و در گزر نہ ہو، اسے انتظار ہلاک کر دیتا ہے۔ اگر تمنا ہوس پرستی بن جائے تو انتظار عذاب ہے۔ اگر تمنا لطیف رہے تو انتظا رکیف کی منازل طے کراتا ہے ۔

انتظار ایک طاقتور ،منہ زور گھوڑے کی طرح ہے۔ اگر سوار کمزور ہو تو گر کر مر جائے گا اور اگر سوار شہسوار ہو تو آسودہ منزل ہو گا۔ انتظار کا دائرہ محبت کی دنیا تک ہی نہیں، اس کے علاوہ بھی ہے۔ ہر وجود انتظار کرتاہے ۔ ہر ذی نفس انتظا ر میں ہے۔ ہر موسم آنے والے موسم کے انتظار میں ہے۔ ہر دور آنے والے دور کا منتظر ہے۔ ہم سب اپنے جانشینوں کا انتظار کرتے ہیں۔

حکمران آنے والی حکومتوں کے انتظار میں اپنا وقت پورا کرتے ہیں۔محنتی انسان اپنی محنت کے معاوضے کا منتظر ہے۔ نوکر پیشہ لوگ تنخواہ کے دن کا انتظار کرتے ہیں اور اس انتظار میں مہینہ گزارنے کے عذاب کو انتظا ر کہتے ہیں۔آج کے ایک مہذب انسان کی زندگی صبح سے شام تک انتظار کے مختلف مراحل طے کرتی ہے۔ اخبار میں اپنی پسند کی خبروں کا انتظار، دفتروں میں خوشگوار واقعات کا اتنظار، ترقی کا انتظار، کھانے پینے کا انتظار اور پھر شومئی قسمت نیند کا انتظار۔

آج کے انسان کو نیند کی دولت بہت کم ملی ہے۔ بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سکون دینے والی نیند نہ جانے کہاں چلی گئی۔ آج کل تو سکون دینے والی گولیاں ملتی ہیں۔ عذاب ،ہے قیامت ہے۔ نیند تو محنت کا حق ہے ، لیکن آج یہ حق دوائی کے بغیر نہیں ملتا۔ یا الہٰی ! یہ سب کیوں ہے ؟ بہر حال انتظارانسان کو گھُن کی طرح کھا رہا ہے ۔ دل اور غم ایک دوسرے کو مل جل کر کھارہے ہیں اور یوں انتظار کے زمانے گزرتے جا رہے ہیں۔

آج کا انسان بھول گیا ہے کہ ہر انتظار کے بعد ایک نیا انتظار ہے۔ ہم اپنے حال کو مستقبل کا انتظار کہہ سکتے ہیں۔ یہ مستقبل ایک حد تک تو ہمیں قبول ہے، لیکن اس کے بعد کا مستقبل یعنی مابعد کا ”مستقبل“ ہماری زندگی اور ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ہم یہ نہیں سن سکتے کہ برھاپا جوانی کے انتظار میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جوانی برھاپے کے انتظار کا نام ہے۔

ہم یہ سننے کو تیار نہیں کہ موت زندگی کے انتظار میں ہے۔ ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ زندگی موت کے انتظار کا دوسرا نام ہے۔ عاجزی اور کمینگی میں برا فرق ہے۔ کبھی کبھی مظلوم کا آنسو ظالم کی تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے !طوفانوں کی طاقت سب کشتیوں کو نہیں ڈبو سکتی! انسانی عقل و خرد کی تمام طاقتیں مکڑی کے کمزور جالے کے سامنے بے بس ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہر انسان کو اچھی نیت ،اور اچھی سوچ عطا فرمائے اور ہر اچھے کام کرنے کی صلاحیت رکھے اور اچھی اُمید کا انتظا رکھے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :