تقدیر بدل جائے تو۔۔۔

منگل 5 اکتوبر 2021

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

تقدیر کو اگر وہ فطرت کہہ دیا جائے، جس میں انسان پیدا ہوتا ہے تو تقدیر کا بدل جانا ایک نا ممکن سی بات ہے۔ پہاڑ کا اپنی جگہ سے ٹل جانا ممکن ہے،لیکن فطرت کا بدل جانا نا ممکن ہے۔شیر بھوک سے مر جائے گا،لیکن گھاس نہیں کھائے گا،کیونکہ شیر کی فطرت میں ایسا نہیں۔ شیر کا مقدر گوشت ہے۔شیرکی تقدیر اس کے مزاج کی شکل میں اس کے ساتھ ہے۔

شاہین کو شاید معلوم ہی نہ ہو کہ قدرت نے اس کی فطرت میں بلند نگاہی اور بلند پرواز اس طرح شامل کر دی ہے کہ اسے پرندوں کی دنیا کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔ کائنات کی ہر شے کو اپنے اپنے مقدر کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے۔ کسی شے کو اپنے مدار اور اپنے حصار سے باہر نکلنا دشوار ہے۔ اجسام اور افراد اپنے مزاج سے نکل کر اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتے۔

(جاری ہے)

ہر ذی جان اور بے جان شے کا اپنی تقدیر میں پابند رہنے کا عمل ہی اس کائنات کی استقامت اور اس کے حسن کا راز ہے۔

اگر ہوائیں چلنے سے انکار کر دیں، تو نظام ہستی ختم ہو جائے۔ سورج تپش سے باہر نکل جائے، تو کائنات درہم برہم ہو جائے۔ ہر شے اپنے مقدر میں رکھی جا چکی ہے۔ انسان کو اکثر یہ بات نا گوار لگتی ہے کہ اس کیلئے ایک تقدیر بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ پابندی اور جبر انسان کو کبھی پسند نہیں رہا۔ اسے آزادی اور آزاد خیالی سے محبت ہے۔ اگر انسان سے یہ کہہ دیا جائے کہ پستیوں میں رہ کر بلندیوں کی تمنا کرنا ہی اس کا مقدر ہے ، تو شاید یہ بات اتنی واضع نہ ہو۔

پابندیوں میں آزادیوں کی تمنا انسان کی سرشت میں توہے، لیکن وہ آزادی کی خواہش کو مقدر کی مجبوری ماننے پربھی تیار نہیں۔بہشت میں انسان کو ہر طرح سے آزادی تھی، خوشی تھی، محنت کے بغیر خوراک میسر تھی ۔کیا نہیں تھا۔ صرف ایک پابندی تھی کہ اس درخت کے قریب نہیں جانا۔انسان نے اپنا بہشت قربان کر کے یہ پابندی آخر توڑ ہی دی۔ انسان آزادی چاہتا ہے،مقدر سے بھی آزادی جو کہ نا ممکن ہے۔

کوئی بھی شخص مقدر کے بغیر پیدا نہیں ہوتا،خواہ وہ اس دُنیا کا یہودی ہے یا نصرانی، عربی ہے یا عجمی، مسلمان ہے یا کافر، سب اپنے اپنے مقدر لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ ہر انسان کا مقدر اچھا ہو یا برا پر مقدر ضرور ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے ،اور انسان کے ماں باپ ہی اس کا مقدر ہیں۔ اور بچہ والدین کی صفات لے کر پیدا ہوتاہے۔ اور والدین کے طرف سے اولاد پر اثر انداز ہوتی ہے اور اثر بڑھتے بڑھتے تقدیر بن جاتا ہے۔

انسان کا اپنا چہرہ اس کی تقدیر ہے۔انسان کی تقدیر اس کے مزاج کی شکل میں اس کے اندر موجود رہتی ہے۔ یہ مزاج مختلف خواہشات پیدا کرتا ہے۔ خواہش عمل پیدا کرتی ہے اور عمل ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ ہم نتیجہ کو مقدر کہہ لیں یا اس مزاج کو جس سے یہ نتیجہ نکلا، فرق نہیں پڑتا،مقدر بہر حال انسان کے ساتھ ہی ہوتاہے۔تقدیر کے مقابلے میں انسان نے تدبیر کا تصور رکھا ہواہے۔

یا حسن تدبیر ہی دراصل تقدیر کی مہربانی ہے۔ ہماری تدبیریں تقدیر کی معاوت ہیں۔ تقدیر کے مقابل نہیں آ سکتیں۔ جب برے دن آتے ہیں تو انسان کی تدبیریں غلط ہو جاتی ہیں ہمیں غلط یا صحیح مشورہ دینے والا دوست تقدیر کا قاصد ہوتا ہے۔ کیا تقدیر بدل سکتی ہے ؟ اگر تقدیر بدل جائے تو بدلنے سے پہلے بھی تقدیرکا ہونا بے معنی سا ہے۔ تقدیر بدل جائے تو حاصل بھی ہے تقدیر!دراصل تقدیر نہیں بدلتی۔

جو بدل جائے وہ تقدیر نہیں۔ہر انسان کے مقدر اور تقدیر میں موت لکھ دی گئی ہے جب وہ پیدا ہوا تھا ، لیکن تقدیر میں یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ اِس آدمی ، انسان کی موت کس جگہ، کس وقت اور کس لمحہ میں ہونی ہے، یہ تقدیر بدل نہیں سکتی یہ ایسے فیصلے ہیں جن کو ہم چاہ کر بھی تبدیل نہیں کر سکتے ۔ انسان اپنی تقدیر آپ بنائے یا اسے بنی بنائی تقدیر مل جائے ،فرق نہیں پڑتا۔

ہم ایک مقررہ مدت تک یہاں ہیں اور اس کے بعد ہمارا سفر ختم ہو جائیگا۔ اس کے بعد ہمارے فیصلے ہمارے اعمال یا ہمارے نتائج پر نہیں،بلکہ ہماری نیت پر ہوں گے، اچھی نیت ہی اچھا مقدر ہے۔ اس شخص کی تقدیر بگڑ جاتی ہے ،جس کی نیت میں فتور ہو، نیت کا بُرا انسان مقدر کا بُرا ہوتا ہے۔زندگی کو باہر ہے خطرہ ہو تو اس کی حفاظت کی جا سکتی ہے، اگر خطرہ اندر سے ہو تو کیا کیا جائے۔

سانس خود ہی رُک جاتی ہے، دل خود ہی بند ہو جاتا ہے۔ بس یہی مقدر ہے ۔اسے بدلنے کی خواہش اور کوشش تو ضرور ہوتی ہے ،لیکن اسے تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جو ٹل جائے ،وہ مقدر نہیں، اندیشہ ہے۔ جو بدل جائے، وہ صرف امکان ہے،مقدر نہیں۔ جو نہ بدلے، وہ مقدر ہے۔ جواٹل ہو، وہی امر الہٰی ہے۔ وہی نصیب ہے۔ ہمارا نصیب ، جو ہمارے عمل کے تعاون کا بھی محتاج نہیں،اس بارش کی طرح ہے،جو آسمانوں سے نازل ہوتی ہے اور اس زلزلے کی طرح جو زمین کے اندر سے ہی پیدا ہوتاہے۔

اس میں کسی کادخل نہیں۔ یہ فطرت کے فیصلے ہیں،اٹل اور نہ بدلنے والے۔ اے انسان اپنے اوپر بھی غور و فکر کر، کیا کیے جا رہا ہے، کہاں جا رہا ہے، کس جگہ جانا تھا، اپنی تلاش کر ، خود کو پہچان اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا اُس کو پہچان ، اچھی نیت اور سوچ پیدا کر تاکہ اچھی نیت پر اچھی مُراد پائے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ تمام انسانوں کو اچھی نیت رکھنے اور اچھی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام نا گہانی اموات سے محفوظ فرمائے۔آمین ثم آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :