تعلیمی نظام اور سوال کی اہمیت‎

پیر 22 مارچ 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

علم کے حُصُول میں سوال کی بڑی اَہَمِیَّت ہے ، اس کے ذریعے سوچ کی گرہیں کھلتی ہیں، چُنَانْچِہ فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے :
شِفَاءُ الْـعِیِّ السُّؤَالُ
یعنی بے علمی کا عِلاج سوال ہے ۔
اسی طرح سوال کو عِلْم کے خزانے کی چابج بھی قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرتِ سَیِّدُنا علی المرتضیٰ شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مَروی ہے :
عِلْم خزانہ ہے اور سُوال اس کی کنجی ہے ، اللہ پاک تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کرو کیونکہ اس ( یعنی سوال کرنے کی صُورَت) میں چار۴ اَفراد کو ثواب دیا جاتا ہے ۔

سُوال کرنے والے کو ، جواب دینے والے کو ، سننے والے اوران سے مَحبَّت کرنے والے کو۔

(جاری ہے)


 اس ضمن میں تھیو ڈور اسٹرک (Theodore Struck) کے مطابق :
’’اگر سوال مناسب وقت اور صحیح طریقے سے کیا جائے تب یہ نہ صرف تفہیم کے نئے افق روشن کرتے ہیں بلکہ علم کی تنظیم و تعلیمی تجربات کو درست کرتے ہوئے بہتر نتائج پیش کرتے ہیں۔
ازاڈور رابی ایک  نوبل انعام یافتہ فزسسٹ لکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے کی ہر ماں کو بچوں کی تعلیم کا جنون تھا۔

ہر ماں بچے سے سکول واپسی پر پوچھتی تھی کہ، “آج نیا کیا سیکھا؟” لیکن میری ماں کا سوال کچھ اور ہوتا تھا، “ازی، تم نے آج کیا اچھا سوال پوچھا؟”۔ اور یونہی، اچھے سوالوں کے پیچھے، میری والدہ نے مجھے انجانے میں ہی سائنسدان بنا دیا۔
 سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں اتنی آزادی حاصل ہے کہ طلبا مضمون سے متعلق استاد سے تبادلۂ خیال کرسکیں یا چند سوالات پوچھ سکیں؟ اس کے جواب میں مجھے Pedagogy of The Oppressed by Paulo Friere _1968 میں ملا جو کہ مشہور ماہر تعلیم ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام ایک بینکنگ سسٹم کے مشابہ ہے جس کا مقصد طلباء میں علم کو اس طرح بھرا جاتا ہے جیسے بینک کو نوٹوں سے بھرا جاتا ہیں۔

طلباء بھی محض ایک حاصل جمع کردار کی مانند  ہیں جو علم کے خزانے کو بغیر تحقیق و تنقید اور بغیر سوال و جواب کے حاصل کرتے جارہے ہیں۔ اس طرح کے نظام کو فروغ دینے اور باقی رکھنے کے پیچھے ایسی وجوہات کارفرما ہیں جس کی جڑیں بہت گہری اور افسوس ناک  ہیں اور کسی حد تک حیرت ناک بھی ہیں دراصل جب طلبا کو تنقید یا سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو وہ سوسائٹی کو من و عن قبول کرلیں گے اور ویسے ہی ڈھل جائیں گے جیسا معاشرہ ہوگا۔

Friere کے مطابق تعلیم یافتہ انسان مہذب ہوتا ہے وہ خود کو اس لائق بنا چکا ہوتا ہے کہ معاشرے کے مطابق ڈھل جائے اور یہی وہ نظریہ ہے جو باطل کو مستحکم بناتا ہے اورکسی بھی طرح کے حالات کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کر لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا استحصال جاری رہتا ہے۔ تنقیدی رجحان سے طلبا کو واقفیت ہی نہیں کرای  جاتی جس کی وجہ سے طلبا میں Liberation یا Emancipation کا جذبہ پنپ ہی نہیں پاتا۔

اس کے نظریے میں وہ آزادی نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس احساس کی بیداری کی کوئی صورت ہی دکھائی دیتی ہے۔
مجھے آٹھویں جماعت کے آخر میں جب کیمبرج سکول سسٹم سے فیڈرل سسٹم میں شفٹ کیا گیا تو دونوں سکولوں میں زمین آسمان کا فرق تھا، میں کلچرل شاک کی وجہ سے بالکل بھی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پا رہی تھی، ایک دن اردو کی استانی نے اردو کے جملے بورڈ پر طالبات کو نقل کیلئے لکھنا چاہے تو میری طرف دیکھ کر خوب غصے سے بولیں کہ آپ کیوں نہیں لکھ رہیں تو میں نے  بتایا مس میں نے تو لکھ لیے ہیں، وہ تنک کر بولیں وہی لکھیں جو میں لکھوا رہی ہوں- میں بہت گھبرائ اور یہ گھبراہٹ اس وقت بام عروج پر تھی جب میرے سب مضامین میں جوابات اسلیے کاٹ دیئے گئے تھے کیونکہ میں نے ہو بہو کتاب والا نہیں لکھا تھا-
یہ سب اس دور میں ہو رہا ہے جبکہ بچے اسقدر آگے نکل چکے ہیں کہ فاسٹ فوڈ پوائنٹ  پر بیٹھے ایکدن میرے پاپا نے ماما سے کہا کہ آپ لوگوں کو بھی آج ہی آنا تھا، ماما نے کہا کہ دل چاہا اور دل تو پاگل ہے- میری سات سالہ بہن جھٹ سے بولی:
Yeah, the heart is crazy.
میں نے پوچھا وہ کیسے تو کہنے لگی
Because heart has no brain.
میں نے پھر سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ؟ وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی:
Both are body parts.
مگر افسوس ہمارے نظام میں ایسے منطقی اور کھوج لگاتے بچوں کیلئے کارکردگی کی گنجائش کم ہے - ایسے ہی ایبٹ آباد کے ایک  نوجوان طالب علم عمیر مسعود ہیں جن کو بین الاقوامی امریکی ادارے لیب روٹ نے ینگ سائنٹسٹ کا ایوارڈ دیا ہے۔


ان کو میٹرک اور ایف ایس سی میں کم نمبروں کی وجہ سے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ایک سال تک داخلے سے محروم رہنا پڑا -
کبھی کبھار تو صورتحال سوال کے معاملے سے بھی زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے کہ سپیلنگ بی کے مقابلے کیلئے ہمارا امتحان لینے کیلئے آنیوالی استانی کا انگلش ادائیگی کا انداز اتنا خراب تھا کہ میں لفظ ہی نہ پہچان پاتی، کچھ دیر بعد جب میں صورتحال بھانپ کر کہا  کہ استانی صاحبہ کو انگیزی زبان کے الفاظ میں دقت ہے، صحیح تلفظ کو دہرا کر سوال کرتی کہ کیا یہ لفظ ہے تو وہ حیـرت سے مجھے یوں دیکھتیں جیسے میں نے کوئی انہونی کر دی ہو-
پچھلے دنوں اردو کی استانی نے طلباء کا سیاست میں کردار پر مضمون لکھنے کو کہا تو میں پوچھ بیٹھی کہ کیا کردار ہے، کہنے لگیں:  یہ کردار ہونا چاہیے، وہ کردار ہونا چاہیے، میں نے پھر سوال کر دیا کہ مس ہونا تو چاہیے مگر مضمون تو یہ ہے کہ کیا کردار ہے تو وہ قائد اعظم کا ذکر لے بیٹھیں، میں نے پھر سوال کی عادت سے مجبور سوال اٹھا دیا کہ قائد اعظم تو لیڈر تھے، اور مضمون طلبا پر ہے، انہوں نے مجھے تھوڑا سخت اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتا کر کہا کہ آپ بھی اس کو دیکھیں، انٹرنیٹ چیک کریں اور میں انٹرنیٹ چیک کرتے کرتے بلاگ تک پہنچ گئی جہاں سے مجھے سچ مچ سوال کا جواب مل جاتا ہے - راحیل فاروق نے کیا خوب لکھا :
میں لاجواب ہونے کو ہوں مجھ سے کچھ نہ پوچھ
تجھ سے کوئی سوال نہ کر دوں جواب میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :