میرے بچپن کا جنوری

جمعرات 3 فروری 2022

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

نئے سال کی آمد سے ایک دن پہلے ہی سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے بےشمار پوسٹس نظر آئیں- کچھ افسردہ، کچھ خوشگوار، کچھ امیدیں، کچھ پچھتاوے اور کچھ جوں کی توں کیفیت کو طاری کئے ہوے۔ یہ سب سوچنے پر مجبور کر رہا تھا کہ میرے لئے یہ جنوری کیسا ہے جو دو ہزار بائیس کے ٹیگ کیساتھ آیا ہے کہ چیزوں کے عنوان ہی تو ان کو دوسروں سے جدا  کرتے ہیں اور ہم ان کو نیا سمجھنے لگتے ہیں۔

تو نیا سال آ گیا ہے اور اکثریت نئے سال میں تبدیلی کی خواہاں نظر آئی اور میرے ذہن میں یہ بات شدت سے آرہی تھی کہ تقریباً سبھی اپنی موجودہ زندگی کو بدلنا چاہتے ہیں یا پھر شاید میرے اکاؤنٹ میں زیادہ تر لوگ کرنٹ افیئرز اور نیوز سے وابستہ شخصیات ہیں تو وہ موجودہ ملکی حالات سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔

(جاری ہے)


کم سنی ، لڑکپن، پیدائش سے بڑے ہونے تک کا زمانہ، نادانی، ناسمجھی، شرارتیں سبھی کچھ سب کے بچپن میں ہوتا ہے جو یادیں بن کر ساتھ ساتھ چلتا ہے- میرا بچپن بھی ایسا ہی ہے لیکن میرے ہم عصروں کے بچپن میں کورونا وبا کیوجہ سے کچھ ایسے حالات و واقعات یادوں کا حصہ بن گئے جو غیر معمولی تھے- پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تعلیمی بورڈز کے امتحانات کینسل ہوگئے اور ہم لوگ کسی امتحان کے بغیر ہی اگلے درجے میں پہنچ گئے مگر زندگی میں کئی اور امتحانات نئے چیلنجز کی شکل میں ہمارے سامنے تھے۔


کہا جاتا ہے آپ کے اندر کی اچھائ محفوظ ہو تو موسموں کی سختیوں کا اثر خود بخود زائل ہونے لگتا ہے اور اگر من کے اندر اندھیرے ہوں تو آس پاس کی روشنی نہ صرف آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے بلکہ اردگرد موجود مثبت عوامل کی بھی نفی کرتی چلی جاتی ہے۔ تو بس ہم نے بھی کورونا کی وبا کے وبال سے کچھ مثبت نکالنے کی کوشش کی۔ کالج بند ہوئے تو میں نے بلاگ پر لکھنے کا سوچا۔

پاکستان کے ایک معروف صحافی سر وجاہت مسعود کا بلاگ پڑھتے تھے، بیٹھے بیٹھے اس پہ لکھنے کا طریقہ دیکھا اور آنے والے دن عورت مارچ کی مناسبت سے تحریر لکھ ڈالی جو بھیجنے کے ٹھیک چار گھنٹے بعد پبلش ہو گئی اور میری خوشی کی انتہا نہ تھی- اس بلاگ پر حوصلہ افزائی نے مزید لکھنے کا شوق پیدا کردیا تو اخبارات میں لکھنے کا شوق پیدا ہو گیا، ایک دو اخبارات کو ای میل بھیجا جن میں سے روزنامہ ستلج کا مثبت جواب ملنے پر تحریر بھیج دی جو اگلے ہی دن اخبار کا حصہ تھی اور پھر لکھنے لکھانے کا سلسلہ چل پڑا، کم عمری میں قلم سنبھالنے پر پڑھنے والوں نے خوب خوب پزیرائی کی اور کم اچھی تحریر کو بھی سراہتے چلے گئے۔

مما اکثر کہتی ہیں کہ اگر آس پاس سورج ہوں تو ایک نہ ایک دن آپ چاند بن جاتے ہیں، اس لئے ہمیشہ کوشش کریں کہ آس پاس اچھے لوگ ہوں۔ کورونا نے دنیا کے سماجی رابطوں کو فیس بک کی طرف مزید دھکیل دیا اور کیا طلباء، کیا جوان اور کیا بوڑھے ہر کسی نے اپنی اپنی ضروریات کے پیش نظر ادھر کا رخ کر لیا۔ تعلیم سے وابستہ لوگوں کیلیے تو انٹرنیٹ ویسے ہی ضرورت بن گیا اور آہستہ آہستہ کاروبار بھی آن لائن شفٹ ہونے لگے۔


انگلش گرامر پر وی لاگز کئے تو خیال آیا کیوں نہ سوشل میڈیا پر کوئی مثبت چیز شروع کی جائے تو تعلیم و ادب کیساتھ ساتھ مختلف شعبوں سے وابستہ مختلف شخصیات کے کچھ انٹرویوز فیس بک لائیو کے ذریعے کر ڈالے، پہنچتے پہنچتے ریڈیو پاکستان سے لائیو پروگرام کا موقع ملا جس میں پنجابی زبان سے دوری اور جناب فیصل خان صاحب کی قابلیت ، انکا فی البدیہہ انداز  یہ سوچنے پر مجبور کر گیا کہ میں تو ابھی سیکھ کی پہلی منزل پر بھی نہیں۔

پریکٹسنگ وکیل، لاء کالج میں لکچرر اور ریڈیو کے منجھے ہوئے اینکر سر فیصل خان نے بہت راہنمائی کی لیکن میں پروگرام کے دوران بس ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی-  اور یوں بلاگ سے اخبار اور اخبار سے ریڈیو تک ہوتے ہوے کورونا سے بدلتی صورتحال نے ہماری زندگی کے ہر میدان میں تبدیلی کو ناگزیر بنا دیا  مگر ہاں میرے دیس کے لوگ آج بھی سیاسی افق پر کسی نئے سورج کے منتظر ہیں جو پسی ہوئی عوام کیلئے نوید سحر بنے مگر شاید یہ نہیں جانتے کہ تبدیلی سالوں کے بدلنے سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے  بدلنے سے آے گی۔

ہمارے اندر سیاسی شعور کی بیداری سے آے گی۔ میری دعا ہے کہ آنے والے جنوری میں میرے لوگوں کی پوسٹس میں وہ یاس نہ ہو جو  اس جنوری کے آغاز پہ دکھائی دی اور کاش لوگ ہر مہینے کا استقبال بھی سال کے آخری مہینے دسمبر کی طرح یہ کہہ کہہ کر کریں کہ اسے کہنا دسمبر آرہا ہے اور میں بھی آخر میں یہی کہوں گی کہ فروری آرہا ہے جس کا مطلب ہے وقت یوں تیزی سے گزرتا ہے کہ دسمبر کے بارے پڑھتے پڑھتے اور بچپن کے جنوری بارے لکھتے لکھتے فروری آن پہنچا اور باقی سال بھی اسی رفتار سے گزر جائے گا چاہے ہم اس کی قدر کریں یا نہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :