ہم چودھویں صدی کے باسی

منگل 28 دسمبر 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

حال ہی میں میرے گھر والے اور میں انٹرٹینمنٹ آور میں ایک ڈرامہ دیکھ رہے تھے جس میں ایک کردار اپنے تئیں کسی پر کوئی جبر ہوتا دیکھتا تو باربار کہتا "ہم چودھویں صدی میں زندہ ہیں"، "چودھویں صدی ہے جی چودھویں صدی۔ " میں ابھی اس کردار کی خود کلامی کے ذریعے ناظرین کو دینے والے اہم پیغام میں الجھی ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر روزانہ بہت سارے ٹیگز میں سے ایک ٹیگ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

یہ ایک اخبار کی کٹنگ تھی جس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ پاکستان کے قیام کے شروع کے سالوں کی ہے جس پر جلی حروف سے سب سے نمایاں سرخی چینی کی قیمتوں اور قلت کے بارے میں تھی-
"چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا"
 ٹیگ کرنے والے نے پوسٹ کا عنوان بھی کمال کا دے رکھا تھا جو کہ پوسٹ کنندہ کی ذہانت کی واضح دلیل تھی :
" ‏ہم اتنے مستقل مزاج ہیں کہ پچاس سال سے ہماری خبریں تک نہیں بدلیں۔

(جاری ہے)

یکم دسمبر 1972 کا اخبار ملاحظہ ہو." -
 اسی پر لکھنے کیلئے میں نے فیس بک کھولی تو سب سے پہلا نوٹیفیکیشن ایک دلچسپ کمنٹ کے بارے میں تھا۔ میں اسے پورا کا پورا اپنے آرٹیکل کا حصہ بنانا چاہوں گی:
" راشد صاحب زبردست شاعر ہیں ، مگر کاش کہ یہ عظمت ہم فراز، مصطفی زیدی یا افتخار عارف کی طرح زندگی ہی میں ان کو دے دیتے، ہماری قوم اتنی مغرب زدہ ہوچکی کہ جب مغرب قبولیت دے دیتا ہے، یہ بچاری قوم بغیر سوچے سمجھے آپ کے گن گانے لگتی ہیں، جیسے یہاں بھی ایک دوست نے تعریف کے پل باندھتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے، بھلا انگریزی سے قابلیت کا کیا واسطہ ۔

۔؟؟ اگرچہ آپ ن م راشد صاحب کو پڑھ اور سنا رہے ہو، یہ بھی بھلا ہو ان کا کہ شکسپیئر گیٹز گوئٹے کی تعریف نہ کر دی درمیان میں، ورنہ ہم کیا بگاڑ لیتے۔ "
املا کی درستگی کے علاوہ یہ کمنٹ ہو بہ ہو لکھنے کی وجہ اس سوچ کی نشاندہی ہے جس کا شکار ہم پاکستان بننے سے بھی پہلے کے ہیں اور اس سوچ کے عملی نقصانات ہم بھگت بھی چکے ہیں- موجودہ حالات میں انگریزی زبان کا علم اور اس زبان پر قدرت حاصل کرنا ایک قومی ضرورت ہے جس کو عام طور پر طالب علموں کو محسوس کرنا چاہیئے خصوصاً ایسے طلبہ جو بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند ہوں۔

اسکے علاوہ بین الاقوامی تجارت، خرید و فروخت اور لین دین سب کا واحد ذریعہ انگریزی زبان ہے۔ اسی طرح مختلف صوبوں میں یہی زبان رابطے کی ہے۔ آجکل دنیا میں یہ سفارتی زبان بن چکی ہے اور اقوام متحدہ میں تبادلہ خیال کا واحد ذریعہ بھی یہی ہے۔ اقوام متحدہ کے جتنے ضمنی ادارے ہیں ان کی زبان انگریزی ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کیلئے تو کثیر جہتی ہے۔

سائنس ٹیکنالوجی اور ثقافت کی دنیا میں پاکستان کی حیثیت زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے انگریزی پر ہمارا انحصار اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ مختلف زبانوں کا سیکھنا بہت اچھی بات ہے۔ اقوام عالم کی تہذیبوں سے واقفیت حاصل کرنے ، انکی سازشوں سے بچنے اور انکی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے اور خود کو بطور قوم چودھویں صدی سے نکالنے کیلئے بھی زبانوں کا سیکھنا اشد ضروری ہے۔


آج انگریزی زبان نے بڑی کامیابی سے دوسری زبانوں کی جگہ لے لی ہے۔ اس زبان کی ترقی کے باعث ہر ملک اس زبان کو ترجیح دیتا ہے۔ تیسری دنیا کے تو اکثر ممالک میں اسے بحیثیت مرکزی زبان کا درجہ حاصل ہے اور اسے تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا بھی جاتا ہے۔ موجودہ دور میں دنیا گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لئے انگریزی زبان کا سیکھنا بہت ضروری ہے۔

دنیا میں جو بھی ایجادات، معلومات، اور تحقیقات ہو رہی ہیں بیشتر انگریزی زبان میں ہو رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام اعلیٰ پیشے جیسے انجیئنرنگ کی تعلیم، میڈیکل زراعت اور سائنس کی معلومات انگریزی زبان میں دی جاتی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں معیاری فنی اصلاحات صرف انگریزی زبان میں ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان کو ایک خاص مقام حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جماعت اول سے گریجویشن تک اسکو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

پرائیوٹ اسکولوں میں ابتداء ہی سے تمام مضامین کی تدریس انگریزی میں ہوتی ہے۔ انگریزی ہمارے کلچر میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اسکے بغیر ہم ترقی کا سوچ بھی نہیں سکتے- ہمارے تمام کاروباری معاملات ، خط و کتابت، تعلیمی اداروں کے امتحانات، پیشہ ورانہ امتحانات مثلاً ایسوسی ایٹس، کورس آف انشورنس، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ٹریننگ پروگرام، (ICTP) امتحانی پرچہ جات انگریزی ہی میں بنائے جاتے ہیں۔

CSS کے امتحانات، ICMAP، CA کے تمام پرچے انگریزی میں ہوتے ہیں۔ تمام شعبہ جات میں انگریزی زبان بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس سے واقفیت بے حد ضروری ہے کیونکہ بیشتر امتحانات انگریزی میں ہوتے ہیں۔ تمام پاکستانی بینکوں بشمول اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تمام رسیدیں ، کیش بک، چیک بُک، ڈرافٹ ، تمام جمع شدہ رقوم اور نکالی جانے والی رقوم کا حساب بھی انگریزی میں ہی ہوتا ہے، حتی کہ درخواست بھی انگریزی میں لکھنی پڑتی ہے۔

چند لوگ انگریزی کی مخالفت اپنی کم علمی یا پھر بطور فیشن کرتے ہیں جبکہ قیام پاکستان سے قبل تو اسے مذہبی پہلو سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا- یہی لوگ تب سرسید احمد خان پر فتوے لگایا کرتے تھے اور حضرت علامہ اقبال تک کو معاف نہ کیا- مغرب کی پزیرائ کو قبولیت اس لئیے ملتی ہے کہ مغرب درست کو درست کہنے کی اخلاقی جرات کیساتھ ساتھ عملی طور پر مضبوط ہے اور ہم محض سوشل میڈیا پر اپنی مادری زبان میں اسٹیٹس اپ ڈیٹ کو اپنی زبان کی ترویج سمجھ لیتے ہیں۔

مغرب آپ پر حکمران بنا تو آپ کے علوم و فنون سمیت جو اچھا سمجھا اٹھا کر لے گیا اورجب یہاں تھا تو اپنے غلاموں کی زبان یعنی مقامی زبان سیکھی- یہ نہیں کہا کہ مشرق کی زبان کیوں سیکھیں؟ ہم مذہب کے نام پر توڑ پھوڑ اور مرنا جانتے ہیں وہ اس پر عمل کر کے جینا سیکھ چکے ہیں- اسلیے ان کی کہی گئی بات سند ہوتی ہے۔ رہی بات دوسروں کی زبان سیکھنے کی تو آج بھی دنیا کے کئی ممالک سے لوگ آکر پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اردو سیکھتے ہیں تاکہ جب ضرورت پڑے ہم جیسے ملنگ لوگوں کو مزید بےوقوف بنایا جا سکے مگر ہمیں تو شاید چودھویں صدی سے آگے بڑھنا ہی نہیں۔

چلیں یہ قاری تو مغرب کے دکھ میں مبتلا اور انگریزی سے شاکی ہیں، اب ایک ایسے قاری کا دکھ ملاحظہ کیجئیے جن کی طبع لبرل پر حرم شریف پر لکھا گیا آرٹیکل ناگوار گزرا-
چودھویں صدی کے کچھ رویے ہمارے تعلیمی اداروں اور گھروں میں بھی ہیں- ہمارے کالج میں آج بھی اردو اور انگریزی کے پرچے میں سے دس یا پندرہ نمبر بطور سکول پالیسی چودھویں صدی کاٹ لیے جاتے ہیں جب کہ بورڈ میں بہت سارے بچّے سو فیصد نمبر لیتے ہیں- میں شومئی قسمت استانی صاحبہ سے پوچھ بیٹھی کہ مس میرے جماعت میں نمبر بلند ترین ہونے کے باوجود سو میں سے پندرہ کم ہیں جبکہ پرچے میں کسی غلطی کی بھی نشاندہی نہیں کی گئی- وہ بڑے اطمینان سے گویا ہوئیں کہ آپ اُردو میں اچھی ضرور ہوں گی مگر احمد فراز جتنی اچھی تو نہیں- دل سے مدھم سی آواز آہ بن کر نکلی کہ پھر پڑھایا بھی تو احمد فراز کے معیار پر جاتا کاش- مزید برآں اگر بورڈ ہمیں احمد فراز کے معیار پر نہیں پرکھتا اور پورے نمبر دیتا ہے تو مقامی ادارے چودھویں صدی سے کیوں نہیں نکلتے- انہی رویوں کی عکاسی گھروں میں بھی نظر آتی ہے-مثال کے طور پر اماں فون قبضے میں لے کر ہمارا فنگر پرنٹ ختم کرا دیتی ہیں، ہم معصوم جب پاپا کی دوستی کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ سر کھجاتے ہوئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں بیٹا این آر او ہی میں بچت ہے اور جب ہم صبر کر لیتے ہیں تو چند ہی گھنٹوں بعد ٹیچر مما کو میسج کرتی ہیں کہ جویریہ آن لائن ایم سی کیوز پریکٹس میں کیوں نہیں تھی تو مما فون واپس کر کے کہتی ہیں، یہ لو وہ ٹیسٹ دیکھ کے فون واپس کرو، فون واپس کر دیا جاتا ہے، گھنٹے دو کے بعد کہیں سے اطلاع آتی ہے کہ کلاس کے واٹس ایپ گروپ میں اگلے امتحان کا شیڈول آ گیا ہے تو میں مما کے فنگر پرنٹس لگوانے جاتی ہوں، دو چار بار کی اس تکلیف سے تنگ آکر مما میرے فون کا کنٹرول پھر سے مجھے یہ کہہ کر دے دیتی ہیں کہ جلدی بند کر دینا- اب آپ لوگ بتائیں کہ فون کے استعمال کو کیسے کم کیا جائے۔


اب امتحانات میں ہماری کارکردگی پر والدین کے چودھویں صدی والے رویے ملاحظہ فرمائیے- دسویں کا نتیجہ آنے پر بابا کے ایک دوست نے میرے دسویں کے نمبر پوچھے تو بابا نے میرے اچھے خاصے بھاری بھرکم نمبر ہلکے پھلکے انداز میں بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ غلطیاں لاپرواہی کی وجہ سے کر گئی ورنہ اور زیادہ اچھے نمبر ہو سکتے تھے تو بابا کے دوست نے کہا : "سر اگر برا نہ لگے تے اک گل دسو۔

" بابا نے کہا جی پوچھیں، وہ ہنسی روکتے ہوئے بولے "تہاڈے کنے سن"؟ جس پر بابا اور انکل دونوں بآواز بلند ہنس پڑے- اسی سے ملتے جلتے رویے کا تجربہ مجھے بابا کے ایک اور دوست انکل طیب شاہ سے ان کی صاحبزادی کے نمبر پوچھنے پر ہوا جس کا ذکر میں اپنے گھر میں ایک قابل لڑکی کے طور پر سن چکی تھی۔ میں نے پوچھا انکل کتنے مارکس ہیں؟ کہنے لگے بیٹا نمبر تو اچھے ہیں مگر یہاں پنجاب میں بہت سخت مقابلہ ہے، وہ پنجاب میں غالباً 70 نمبر پر ہے۔ یقین کریں میری حیرت کی انتہا نہیں تھی یعنی ہزاروں میں مارکس لے کر، اپنے کالج میں ٹاپ کر کے بھی آپ اپنے گھر والوں کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔ بس یہی چودھویں صدی کے رویے ہماری جان نہیں چھوڑ رہے اور ہم معصوم بول بھی نہیں سکتے کہ کہیں گستاخی نہ ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :