صحافت برائے امن (Peace Journalism)

بدھ 9 دسمبر 2020

Kashan Sikander

کاشان سکندر

جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیس جرنلزم (Peace Journalism) یا صحافت برائے امن شعبہ ابلاغیات کا ایک اہم موضوع ہے جسے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور ڈاکٹر جان گلتونگ (Johan Galtung) نے باقائدہ اکیڈمک ڈسپلن کے طور پر فروغ دیا اور اس اعتبار سے انھیں اس شعبے کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ڈاکٹر گلتونگ کے مطابق امن کا تعلق محض تناؤ کے عدم وجود سے نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے انصاف کا وجود بھی ضروری ہے اسی لئے انھوں نے ‘امن سب کیلئے’ (peace for all) کے نعرے کی بنیاد پر پیس جرنلزم کی بنیاد رکھی۔

جان گلتونگ نے اپنے مقالات میں اسے دو اشاریوں منفی (Negative Peace) اور مثبت (Positive Peace) میں تقسیم کیا ۔ امن کے منفی اشاریے سے مراد کسی سوسائٹی میں تنازعات یا تشدد کا عدم وجود ہے جبکہ مثبت اشاریے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جہاں انصاف، برابری اور ہم آہنگی جیسی اقدار کو پذیرائی حاصل ہو۔

(جاری ہے)


ڈاکٹر جان گلتونگ نےکچھ  اہم اصول قائم کیے جو امن صحافت کے لئے اہم رہنمائی کا کام کرسکتے ہیں۔


:1تنازعات کی تشکیل کو دریافت کریں: کون شامل فریق ہیں۔ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ تنازعہ کا سماجی و سیاسی اور ثقافتی تناظر کیا ہے؟
:2 تشدد کی پوشیدہ وجہ کیا ہے؟
:3اس میں شامل فریقوں کی انفرادیت چھین نے سے گریز کریں اور ان کے مفادات کو بے نقاب کریں۔
:4نچلی سطح پر ہونے والے عدم تشدد کے اقدامات کی اطلاع دیں اور مفاہمت کے مراحل کی پیروی کریں۔


پیس جرنلزم ایک دلچسپ موضوع ہے اور اس کی بنیاد مثبت اشاریے ہیں جو جنگ اور امن دونوں صورتوں میں قابل تقلید ہیں۔ یہ کسی بھی تنازعے کی وجوہات کا جائزہ لیتی اور تنازعے کے حل کیلئے فریقین میں مذاکرات پر زور دیتی ہے اور تنازعہ میں شامل گروپوں کو تقسیم کرنے کی بجائے انھیں مذاکرات  کرنے پر زور دیتے ہوئے جھگڑے کے کسی ایک فریق کو اچھا یا کسی دوسرے فریق کو برا کہنے سے اجتناب کرتی ہے۔


دوسرا یہ کہ پیس جرنلزم  سرکاری پراپیگنڈا کو مسترد کرتی ہے اور حقائق جانچنے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کرتی ہے۔ پیس جرنلزم  صحافت یا رپورٹنگ میں توازن رکھنے کیلئے مسائل اور مصائب کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مسئلہ کے تمام فریقوں کے مؤقف کوسامنے رکھتے ہوئے امن کیلئے حل تجویز کرتی ہے۔
پیس جرنلزم  طاقتور لوگوں کی آواز بننے کی بجائے مظلوموں کی آواز بنتا ہے تشدد اور تنازعہ سے جڑی فضولیات اور سنسنی خیزی میں الجھنے کی بجائے مسائل کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیتاہے۔


 پیس جرنلسٹ رپورٹنگ کرتے وقت نتائج سے لاپرواہ ہو کرذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی رپورٹنگ میں سوچ سمجھ کر درست اور مثبت الفاظ کا استعمالٔ کرتے ہیں تاکہ ان کی کسی چھوٹی سی غلطی سے کوئی آگ نہ بھڑک اٹھے۔ وہ جنگ کے شکار علاقے سے لی گئی کسی ایسی تصویر کو رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے کوئی غلط فہمی یا انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو۔

۔
اگر ہم پاکستان میں پیس جرنلزم کی بات کریں تو پیس جرنلزم  کا تصور انتہائی  محدود ہے ۔ میڈیا بنیادی طورپر شواہد، تحقیق اور تبصرہ وتجزیاتی بنیاد پر لوگوں کے سامنے ایک ایسے سچ کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے جو مجموعی طور پر ملک میں مثبت تبدیلیوں اور حالات و واقعات کو درست سمت میں سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
مگر ایک ایسا میڈیا جو مجموعی طو رپر منافع کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہو تو اس میں ذمہ داری کی بحث اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

کیونکہ میڈیا اگر مسائل کے حل میں الجھاؤ یا بگاڑ پیدا کرنے کا حصے دار بن جائے تو اس سے قومی مسائل اور زیادہ خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں اور  جب میڈیا ریٹنگ کی سیاست کا شکار ہوکر محض محاز آرائی پیدا کرنے اور اپنی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے سچ اور جھوٹ کے درمیان سچ کی تمیز کھو دے تو مسائل کی نوعیت اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے
 ہمارے میڈیا میں یکطرفہ منفی خبروں کی ہر وقت بھر مار رہتی ہے جن میں پیس جرنلزم کے عوامل کا خیال نہیں کیا جاتا۔

یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا ہمارے  روائیتی میڈیا پر اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اوراسی وجہ سے اب یا سوشل میڈیا عوامی زندگی میں مقبول ہو رہا ہے۔میڈیا ہماری ریاست کا چوتھا ستون ہے اس لئے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیس جرنلزم کے فلسفے اور تصور سے روشناس ہونے کی شدید ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :