
ویکسین ، چوری اور چند گزارشات
ہفتہ 17 اپریل 2021

کوثر عباس
(جاری ہے)
دوسری گزارش خود ویکسین کے متعلق ہے :پاکستان میں روسی سپٹنک فائیو (Sputnik V) ویکسین لگائی جا رہی ہے جس سے متعلق خود روس کے لوگوں میں خدشات پائے جاتے ہیں ۔ مشہوربرٹش میدیکل جرنل (The BMJ) نے اس بارے ایک تحقیقی آرٹیکل شائع کیا ہے ۔یہ رسالہ ایک سو اسی سالہ پرانی مشہور برٹش میدیکل ایسوسی ایشن (BMA) کے تحت شائع ہوتا ہے ۔ مزید تسلی اور تشفی کے لیے اس جرنل کی تحقیق سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے یا کوئی ماہر ڈاکٹر ہی اس پر رائے دے سکتا ہے میں صرف ایک رجحان کا بتا رہا ہوں ۔خود کمپنی کی طرف سے اس ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت دس ڈالر مقرر کی گئی ہے ۔اس لحاظ سے اس کی قیمت لگ بھگ پندرہ سو روپے ہونی چاہیے تھی لیکن یہ بارہ ہزار سے لے کر پندرہ ہزار تک لگائی جا رہی ہے ۔ سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ امپورٹر بارہ ہزار کی درآمد کر رہا ہے جبکہ اوپر کا پیسا ہسپتالوں والے انجیکشن لگانے کے نام پر کما رہے ہیں ۔مارکیٹ میں اس وقت دو طرح کی ویکسین د ستیاب ہیں ۔ ایک کو ڈی این اے(D.N.A) بیسڈ ویکسین کہتے ہیں جبکہ دوسری آر این اے (R.N.A) بیسڈ ویکسین کہلاتی ہے ۔روسی ویکسین سپٹنک فائیو ڈی این اے بیسڈ جبکہ امریکی ویکسین پی فائزر (Pfizer) آر این اے بیسڈ ہے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ماہرین کے مطابق اگر یہ عمل نقصان دہ ہوا تو ڈی این اے بیسڈ ویکسین کا نقصان زیادہ ہو سکتا ہے جبکہ آر این اے بیسڈ ویکسین بھی سائیڈ افیکٹس سے مکمل پاک نہیں ہے کیونکہ یہ بھی جا کر سیل میں نئے پروٹین بنائے گی جس کا لمبے عرصے کے لیے سائیڈ افیکٹس کا کوئی علم نہیں ۔پی فائیزر کے بارے میں بھی یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک آپ کی حفاظت کر ے گی ۔کیا حکومت نے ان تمام عوامل پر غور کیا ہے؟
تیسری گزارش ویکسین چوری سے متعلق ہے :خبر یہ ہے کہ ویکسین چوری ہو گئی ہے ۔چوری والی بات کو ”جوک آف دی سینچری“ کا ایوارڈ ملنا چاہیے ۔حکومت کا کام خبر دینا نہیں بلکہ چوری کی واردات کو روکنا اور اگر چوری ہو جائے تو چوروں کو پکڑ نا ہے۔اگر چوری ہوئی ہے تو یہ کسی عام فرد واحد کا کام تو ہو نہیں سکتا بلکہ اس کے پیچھے کسی خواص کا ہاتھ ہو گا۔کیا حکومت بتانا پسند کرے گی کہ ویکسین کہاں رکھی گئی تھی؟وہاں کیمرے تھے یا نہیں ؟حفاظت کس کی ذمہ داری تھی؟چوری کے اوقات میں ڈیوٹی کس کی تھی ؟اس سے پوچھا گیا یا نہیں اور تفتیش کہاں تک پہنچی ہے ؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ویکسین ”پیاروں“ کو لگا دی گئی اور کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لیے اس”لگائی گئی ویکسین“ کو چوری کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ویکسین کے لیے رجسٹریشن ہوتی ہے ، فرض کریں کہ ایک دن میں ہزار بندوں کو ویکسین لگنا تھی ، بیچ میں دس بندے ایسے آئے جنہیں بنا کسی رجسٹریشن اور قطار کے کسی ”فون کال“ یا” سفارش“ پر ویکسین لگا دی گئی۔مزید یہ ہوا کہ ایسے ہی دس ”بااثر“ افراد کو گھروں میں ویکسین لگا دی گئی تورجسٹریشن کے لحاظ سے اس دن ویکسین کے سٹاک سے ہزار خوراکیں کم ہونا تھیں لیکن ان بیس ”اوپر“ کے افراد کی وجہ سے بیس خوراکیں مزید کم ہو گئیں جو کسی کاغذی کارروائی میں بھی نہیں ڈال سکتے کیونکہ ان بیس افراد کی اس دن رجسٹریشن ہی نہیں تھی ۔لہذا موٹی گردنیں بچانے کے لیے ”ٹھکانے “ لگی اس ویکسین کو چوری کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ۔میں فتویٰ نہیں لگا رہا بلکہ ایک خدشے کا اظہار کر رہا ہوں جسے سوشل میڈیا پر گردش کرتی وہ ویڈیوز تقویت دے رہی ہیں جن میں ”بااثر“ افراد گھروں میں بیٹھ کر بڑے فخر سے ویکسین لگوا رہے ہیں۔ویکسین کس سنٹر میں تھی اور وہاں کیمرے تھے یا نہیں ؟ بس یہی دو سوال اصل حقیقت بتانے کے لیے کافی ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.