نئے سال کی تقریبات اور اسلامی اقدار

بدھ 29 دسمبر 2021

Khalid Bhatti

خالد بھٹی

نیا سال جہاں لوگوں کے لیے ہزار ں نئی امیدیں اور خوشیا ں لے کر آتا ہے وہی 31 دسمبر کی رات 12 بجے لوگ نئے آنے والے سال کو خوش آمدید اور گزرنے والے سال کو الواع کہنے کے لیے جشن منا تے ہیں ، اس ضمن میں ہر ملک اور خطہ کا نئے سال کے موقع پر جشن منانے کا انداز الگ ہوتا ہے اور اگر ہم مغربی دنیا کی بات کریں تو ان کی نئے سال کی سیلیبریشنز پاکستانیوں سے مختلف ہوتی ہیں مغربی دنیا اور امریکا کے لو گ نئے سال کے موقع پر 31 دسمبر کی رات 12 کے بعد اپنی اپنی فیملیز اور دوستوں کے ساتھ مختلف پارکوں ، سیکوئیرز یا پھر بڑے بڑے چوکوں پر جہاں بڑی بڑی گھڑیاں نصب ہوتی ہیں ان کو سامنے اگٹھے ہو کر آنے والے نئے سال کو ویلکم کرتے ہیں اس موقعے پر موسیقی کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور نئے سال کی شروعات کے موقع پر اہم اور بڑی بڑی عمارتوں کو خصوصی لائٹینگز سے سجایا جاتاہے اور آتش بازی بھی کی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

نئے سال کے شروع ہونے کے بعد وہ لوگ اپنے دوستوں اور فیمیلز کے ساتھ ڈینزپر نکل جاتے ہیں کیونکہ 25دسمبر کو کرسمس منانے کے بعد وہ نئے سال کو انجوائے کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مغرب میں رہنے والے لوگوں کے نزدیک نیا سال ایک نئی شروعات ہوتا ہے جو اپنے آغاز کے ساتھ ان لوگوں کو گزشتہ سال میں پیش آنے والی پریشانیوں اور تکلیفوں سے نجات دلا کر ان کی زندگیوں کو کامیابوں اور خوشیوں سے بھر دے گا۔


اسی طرح اگر ہم نئے سال کی سیلیبریشنز کے حوالے سے پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی بات کریں تو پاکستان میں ھی 31 دسمبر کی رات 12 بجے نئے سال کو منانے کی روایت ہے تا ہم اس ضمن میں ہمیں اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کو اس حوالے سے ابھی کافی تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری نوجوان نسل کا طرز عمل صحیح نہیں ہے ایک طرف تو ایک مذہبی ریاست ہونے کے ناطے نئے سال کے آغاز میں کچھ لوگوں کی جانب سے نئے سال کو ملکی سلامتی اور خوشحالی کی دعاؤں ، نوافل اور ایک دوسرے کو امن اور خوشحالی کے پیغامات بھیج کر ویلکم کیا جاتا ہے وہی دوسری طرف ہماری نوجوان نسل 31دسمبررات12بجے اپنی روایتوں اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتی ہے۔

نئے سال کی رات ہمارا نوجوان طبقہ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ملک کے بڑے شہروں کراچی ، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی ، ملتان وغیرہ کی بڑی شاہراہوں اور چوکوں میں اگھٹے ہوکر نئے سال کو سیلیبریٹ کرتا ہے اس وجہ سے ٹریفک کا نظام درم برم ہوجاتا ہے اور سڑکووں پر تل دھڑنے کی بھی جگہ نہیں بجتی جس کی وجہ سے عام لوگوں کو اس رات بہت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ، اس موقع پر شور کی وجہ سے لوگوں کو نہ صرف کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مریضو ں اور بچوں کے لیے بھی بڑی مشکلات ہوتی ہیں ۔

اسی طرح نوجوانوں کے ہاتھوں میں مخصوص باجے ہوتے ہیں جن کے شور سے لوگوں کے کان پھٹنے لگتے ہیں اور اسی طرح نوجوان اپنی حرکات کی وجہ سے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں ۔ اور نئے سال کی سیلیبریشنز میں ا سی طرح ہوائی فائرنگ کے مختلف واقعات کے باعث ملک میں کافی لوگ شدید زخمی اور ہو جاتے ہیں اور بعض مقامات پر ہوائی فائرنگ کے باعث لوگ اپنی زندگیوں کو کھوں دیتے ہیں مثال کے طور پرسال 2021 کی سیلیبریشنز کے موقع پر ہوئی فائرنگ کے دوران کراچی میں 19لوگ شدید زخمی ہوئے تھے جن میں سے بعد میں4آدمی اپنی جان بھی کھو بیٹھے تھے ایک اور ہوائی فائرنگ کے ایک اور واقع میں کراچی میں ہی 17 افرادشدید زخمی ہوئے تھے اور اسی طرح کو واقعات ملک کے دیگر بڑے شہروں لاہور، ملتان، پشاور، راولپنڈی اور کوئٹہ میں بھی پیش آئے تھے۔

یہ تمام اقدامات اسلامی اقدار اور تعلیمات کے مکمل طور پر خلاف ہیں کیونکہ اسلام تو ہمیں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا درس دیتا ہے لیکن نئے سال کو منانے کی آڑ میں ہم نہ صرف اپنے ملک کی پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہم لوگ دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل بھی رہے ہوتے ہیں۔ نئے سال کو منانے کے حوالے سے اگر ہم اسلامی اقدار اور روایات کی بات کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے مسلمانوں کا نیا سال یکم محرم الحرام کو شروع ہوتا ہے اور نئے سال کو سیلیبریٹ کرنے کے حوالے سے تصور یورپ سے مختلف ہے اسلام کے تصور کے مطابق نئے سال کے موقع پر خوشی منانے کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا محاسبہ کیا جائے اور کزرے سال کی غلطیوں کو ذہن میں رکھ کر آنے والے سال کو خوش آمدید کہیں۔

اس کے ساتھ اسلامی کلچر کے مطابق نئے سال کا آغاز خصوصی دعاؤں، عبادات اور نوافل کے ساتھ کیا جاتا ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق نئے سال کے موقع پر موسیقی، آتش بازی کرنا، مختلف قسم کے باجے بجانا اور ایسی بہت ساری روایات جو کہ ہمارے لوگوں نے یورپ سے متاثرہو کر اپنائی ہیں ان سب کی ممانعت ہے اور ویسے بھی مسلمانوں کو نیو ائیر تو یکم جنوری کے بجائے یکم محرم الحرام کو شروع ہوتا ہے اور بدقسمتی سے یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ پاکستانیوں میں جتنا جوش و جذبہ 31دسمبر کی رات کو نئے سال کو لے کر ہوتا ہے اتنا جذبہ ہمیں یکم محرم کو دیکھنے کو نہیں ملتا خاص طور پر ہماری نوجوان نسل میں بلاشبہ یہ ہمارے لیے ایک سوچنے کی بات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس حوالے سے اپنی نوجوان نسل کو مغربی خرافات سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں علماء اکرام کے ساتھ ساتھ ہماری الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے اس لیے انھیں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اسلام نئے سال کی خوشیا ں منانے سے منع نہیں کرتا لیکن نئے سال کی خوشیاں منانے کی آڑ میں ہمیں اپنی مذہبی اقدار اور تعلیمات کا جنازہ نہیں نکالنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :