سانحہ مری اور حکومتی نااہلی : ”میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں“

پیر 10 جنوری 2022

Khalid Bhatti

خالد بھٹی

جمعہ کے دن مری میں ایک انتہائی المناک اور افسوسناک واقع پیش آیا جس پر ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہے جب سردیوں کی چھٹیوں کے دوران اپنی فیملیز ، بچوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر اپنی چھٹیوں اور مری کی برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے شہری مری میں داخل ہوئے لیکن افسوسناک طور پر مری میں ریکارڈ برف باری اور پنجاب حکومت اور سول انتظامیہ کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ کر سیرو تفریح اور مری کے موسم کو انجوائے کرنے والے لوگ ایک افسوس ناک سانحے کا شکار ہو گئے جس کے باعث پنجاب حکومت کے مطابق قریب 22 لوگوں نے بر وقت حکومتی مدد نہ ملنے کے باعث اپنی گاڑیوں میں سسک سسک کر شدید سردی اور برف باری میں کسی مسیعہ کا انتظار کرتے کرتے اپنی گاڑیوں میں اپنی جانیں دے دیں۔

واضع رہے اس افسوسناک سانح میں اپنی جان کی بازی ہارنے والوں میں سے ایک اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی کی فیملی بھی شامل ہے جن کی آخری فون کال کے سامنے آنے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اور ان جیسے لاکھوں سیاح کیسے 20-20 گھنٹوں تک سول انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی نااہلی کا شکار ہوکر کر بدترین ٹریفک میں پھنس کر اپنی گاڑی میں فریز ہوکر جان کی بازی ہار گے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ اس سانحہ میں ہلاک ہونے والوں میں ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والوں لوگوں بھی شامل ہیں۔
 جہاں اس انسانیت سوز سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا وہی پر اس حادثے نے حکومتی گڈ گورننس اور وزیراعظم کے سیاحت کے فروغ پر کیے جانے والے اقدامات اور دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور اس ضمن میں انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ بجائے اپنی نااہلی تسلیم کرنے کے حکومتی وزرا اور مشیر واقعے کا ذمہ دار سیاحوں کو ٹھہرانے لگے ہیں جس کا اظہار وفاقی وزیر اظلاعات فواد چوہدری اور خود وزیراعظم عمران خان کے بیانات سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنے بیانات میں شدید برف باری اور سیاحوں کی تعداد کو قصوروار قرار دیا ہے۔

وہی وزیر اطلاحات اور پنجاب حکومت جو دو دن قبل سیاحوں کی تعداد اتنی بڑی تعداد کی مری میں آمد کو اپنی حکومت کی کامیابی اور سول انتظامیہ کی جانب سے بہترین انتظام کے شادیانے بجا رہے تھے، وہی حکومت اب یہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس کی ذمہ داری سیاحوں پر ڈال رہی ہے۔ ہر وقت یورپ کی مثالیں دینے والی حکومت کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اگر یہی واقع کسی یورپی ملک یا امریکا میں پیش آیا ہوتا تو کیا وہا ں کی حکومت بھی اس واقعے کی ذمہ داری مرنے والی لاشوں پر ڈال کر خود اس سے بری الذمہ ہو جاتی اور کیا ہمارے وزیر اعظم جو کہ پچھلی حکومتوں پر ایسے سانحات پیش آنے پر فوری استعفوں کا مطالبہ کرتے تھے وہ اس انسانیت سوز سانحہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب جو کہ براہ راست اس سانحہ کی ذمہ دار ہیں ان سے استعفیٰ لیں گے۔

کیونکہ باہر کے ملکوں میں جب بھی ایسی برف پڑتی ہے تو وہاں چند گھنٹوں میں ہی ٹریفک بحال ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان ملکوں میں اس طرح کی برف باری سے نمٹنے کے لیے جدید مشینیں اور لوکل گورنمنٹ کا زبردست سسٹم ہوتا ہے اور وہا ں کی انتظامیہ بروقت جائے واقعے پر پہنچ کر امدادی سرگرمیوں میں لگ جاتی ہے کینیڈا، روس، اور امریکہ کی کئی ریاستوں میں ماضی میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پرا تھا جنہوں نے بروقت انتظامات اور جدید ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم اور مشینری سے اپنے شہروں کی جانوں کو بچا کر ایسے سانحات رونما ہونے سے اپنے ملکوں کے بچایا ہے، جبکہ ہماری سول انتظامیہ کو لوگوں کے مرنے اور حالات کے کشیدہ ہونے کے بعد ہوش آتا ہے اس وقت تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور اس سے بھی افسوناک بات یہ ہے کہ جب ہفتے کے روز مری میں پھنسے لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے اور جب وزیر اعلیٰ پنجاب کو امدادی آپریشن کی نگرانی کے لیے خود مری میں موجود ہونا چاہیے تھا افسوسناک طور پر وہ اس وقت لاہور میں پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالے سے ہونے والی میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں اپنے لوگوں کی کتنی فکر ہے۔

اور یہ ایک ڈوب مرنے کا مقام ہے ایک طرف مری میں معصوم بچے اور عورتیں اتنی شدید سردی میں بے یارو مددگار پڑے حکومتی مدد کے منتظر ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کو پارٹی کی تنظیم سازی کی پڑی رہی۔
حکومت ایک طرف یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں کا دو دنوں کے دوران مری میں داخلے سے صورتحال کنٹرول سے باہر تھی اور اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کے داخلے سے سول انتظامیہ کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا اور بروقت امداد فراہم کرنا نا ممکن تھا لیکن اگر حکومت کی یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی جب این ڈی ایم اے کی طرف سے گزشتہ ہفتے ہی مری میں شدید برف باری کی پیشن گوئی کر دی گئی تھی تو حکومت نے بروقت کوئی اقدامات کیوں نہ کیے اور مزید برآں اگر سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد خراب موسم میں مری جا رہی تھی تب بھی ان کو روکنا تو حکومت نے ہی تھا تو اگرا کوئی خطرہ تھا تو حکومت نے انھیں روکا کیوں نہیں تھا۔

اگرا حکومت بروقت امدد فراہم کر لیتی یا ان کی جانب سے اقدات ہوتے تو آج پورا ملک اس المناک واقعے پر سوگ نہ منا رہا ہوتا اور سیرو تفریح سے لطف اندوز ہونے والوں لوگوں کی آنکھیں اپنے پیاروں کو اس واقعے میں کھو دینے سے اشکبار ہونے کے بجائے ان کے چہروں پر خوشی ہوتی۔ اور اگر آپ کی حکومت لوگوں کو سیرو تفریح کے لیے کوئی اقدامات یا پالیسز نہیں بنا سکتی تو خدا راہ ہر وقت سیاحت کے فروغ کے شادیانے بجانا بند کیجیے کیونکہ عوام پھر آپ باتوں اور وعدوں پر یقین کر لیتی ہے اور بعد میں آپکی نااہلی اور سیاحت پر پالیسیوں کے فقدان کی وجہ سے ان کو اس کی قیمت اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں دی کر ادا کرنی پڑی۔

حکومت کی جانب سے اب اس سانحہ کو جو بھی رنگ دیا جائے یا جس کو بھی قصوروار ٹھیرایا جائے لیکن جناب وزیر اعظم صاحب اس سانحے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں عورتوں اور لوگوں کی لاشیں آپ سے ایک ہی سوال کرتیں ہیں کہ:
”میں اپنا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کروں“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :