
افلاطون کی ریاست اور پاکستان کی ریاست
جمعرات 3 دسمبر 2020

خالد فاروق
(جاری ہے)
افلاطون کہتا ہے کہ جب لوگوں کو مخلص اور قابل حکمران نہیں ملتے تو وہ ان لوگوں کو اقتدار سونپ دیتے ہیں جن میں سیم و زر کی ایک مخفی اور خوفناک خواہش ہوتی ہے۔ یہ مال کو کال کوٹھریوں میں جمع کریں گے ان کے اپنے خزانے اور گودام ہوں گے۔ جن میں مال و دولت کو چھپا کر رکھ سکیں۔ یہ محل بنائیں گے جو ان کے انڈوں کےلئے مناسب حال گھونسلے ہوں گے۔ اور ان میں اپنی بیویوں پر یا اور جس پر چاہیں گے بڑی بڑی رقمیں صرف کریں گے۔ یہ کنجوس ہوں گے کیونکہ جس روپے کی اتنی قدر کرتے ہیں اسے علانیہ حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ مال خرچ کرتے ہیں جو دراصل دوسرے کا ہے۔ یہ اپنی مسرتیں چوری سے حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر جس طرح بچے اپنے باپ سے بھاگتے ہیں یہ قانون سے فرار ہوتے ہیں۔ اس قسم کی حکومت خیر اور شر کی ایک ملاوٹ ہے۔
اب آپ ان باتوں کو چاہیں تو ن لیگ کے ساتھ جوڑ دیں کہ ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے'' چاہیں تو عمران خان کے ساتھ جوڑ دیں یا پی پی کے ساتھ آپ کی اپنی مرضی۔
افلاطون مزید کہتا ہے کہ اگر مناسب اور خالص حکمران نہ ملیں تو لوگ بعض اوقات ان لوگوں کو حکمران بنا دیتے ہیں جنہیں امن سے زیادہ جنگ اچھی لگتی ہے۔ پاکستان میں ساری جنگیں مارشل لا کے دور میں لڑی گئیں۔ وہ 1965 کی جنگ ہو، وہ 1971 کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ ہو،وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو۔ سب کی سب آمروں نے عوام کو بیوقوف بنانے اور اقتدار کو طول دینے کے لئے لڑیں۔ افلاطون مزید کہتا ہے کہ معاشرے کے لیے ایک اور بڑا خطرہ وہ لوگ ہیں جن کو کوئی کام نہیں ہوتا۔ وہ فارغ اور بے کار لوگوں کو نکھٹو کہتا ہے۔ یعنی جیسے شہد کے چھتے میں نکھٹو ہوتا ہے۔ خدا نے ان اڑنے والے نکھٹوؤں کو تو بے ڈنک بنایا ہے۔ لیکن ان چلنے والوں میں کچھ تو اس نے بے ڈنک بنائے ہیں لیکن بعض کے تو بہت ہی خوفناک ڈنک بھی ہوتے ہیں۔ بے ڈنک طبقے میں تو وہ ہیں جو بڑھاپے میں پہنچ کر اپنی زندگی مفلس بھکاری کے طور پر ختم کرتے ہیں۔ اور ڈنک والے گروہ سے وہ طبقہ نکلتا ہے جسے مجرم کہتے ہیں۔ صاف بات ہے کہ جب کبھی تم کسی ریاست میں مفلس بھکاری دیکھو تو بس سمجھ لو کہ یہیں کہیں پڑوس میں چور، گرہ کٹ راستے میں لوٹنے والے اور ہر قسم کے بدمعاش بھی ضرور پوشیدہ ہوں گے۔
اور آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جرائم غربت اور بیروزگاری کہ کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اور غربت اور بیروزگاری دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے جنم لیتی ہیں۔ دنیا کے عظیم فلسفی کی عظیم کتاب کا خلاصہ ایک کالم میں سمونا ناممکن ہے۔ اس لئے چند ایک باتوں کا تذکرہ ہی ممکن تھا جو میں نے کر دیا ہے۔ پوری کتاب ایک کالم میں سمجھنا سمجھانا میرے بس کی بات نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد فاروق کے کالمز
-
رومن اردو ایک محبوب قاتل
منگل 15 فروری 2022
-
1971 کی جنگ اور آبدوز ہنگور
جمعرات 9 دسمبر 2021
-
میری خراب ہینڈ رائٹنگ پر تنقید
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
میں نے ایف ایس سی کے بعد جینا شروع کیا
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
ایک دوست کی چھٹیوں کی سرگزشت
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
آپریشن دوارکا: پاک بحریہ کے عزم، ہمت اور حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت
پیر 6 ستمبر 2021
-
پاک بحریہ کی وطن عزیز کیلئے کثیر الجہتی خدمات
ہفتہ 14 اگست 2021
-
حسن طلال ٹوانہ
پیر 31 مئی 2021
خالد فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.