تعلیم کے تین سی اور ہمارے اساتذہ

بدھ 30 دسمبر 2020

Khalid Farooq

خالد فاروق

میرا چچا زاد بھائی طاہر بلال سہ پہر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہے۔ ایک دن اسے دیر ہوگئی تو میں بچوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور گپ شپ لگانی شروع کر دی۔ ٹیوشن پڑھنے والے، بچوں میں مختلف عمر، مختلف کلاسز، مختلف سماجی مرتبے کے بچے موجود تھے۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں ان سے سوال کرنے شروع کر دیے۔ میرا پہلا سوال یہ تھا کہ ہر بچہ یہ بتائے کہ اسے کون سا ٹیچر اچھا لگتا ہے، کیوں اچھا لگتا ہے اور وہ کیا پڑھاتا ہے۔

میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ کون سا ٹیچر برا لگتا ہے، کیوں برا لگتا ہے اور وہ کیا پڑھاتا ہے۔ تمام بچوں کا مجموعی جواب کچھ یوں تھا ہمیں وہ استاد اچھا لگتا ہے جو کلاس میں ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرے پڑھانے کے ساتھ کچھ قصے کہانیاں بھی سنائے اور زیادہ سخت نہ ہو اور وہ استاد برا لگتا ہے جو صرف اور صرف پڑھائی کی بات کرے، سختی کرے اور بچوں کو گالیاں دے یا برارویہ رکھے۔

(جاری ہے)

صرف ایک بچے کے علاوہ سب نے کہا کہ ان کا ناپسندیدہ مضمون ریاضی ہے۔ زیادہ تر کا پسندیدہ استاد یا تو اردو پڑھاتا تھا یا انگلش۔ ریاضی مضمون کے ساتھ ساتھ ریاضی پڑھانے والے ٹیچر بھی ان کو پسند نہ تھے۔ مجھے اپنے FSc کے ریاضی کے استاد یاد آ گئے۔ اللّہ ان پہ رحم کرے کلاس میں آتے تھے تو سلام کرنے کے بعد لکھنا شروع کرتے تھے اور آخری منٹ تک لکھتے ہی رہتے تھے۔

ہم ان سے بے انتہا عاجز تھے۔ بارہا فیڈبیک میں ان کی شکایت کی کہ یہ کوئی اخلاقی گفتگو نہیں کرتے نہ کبھی کوئی واقعہ سناتے ہیں بس آتے ہیں روبوٹ کی طرح پڑھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ مگر ہمارا فیڈبیک نہ تو استاد بدل سکا، نہ ہی استاد کو بدل سکا۔ اور ہم مومن خان مومن کی طرح اللہ اللہ کر کے FSc سے نکلے
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے
مجھے اب بھی ریاضی سے اتنی الجھن ہے کہ اگر قیامت کے دن خدا نے مجھے یہی سزا سنا دی کہ اپنے اعمال کا حساب خود کر کے لے آؤ تو میرے لئے یہی سزا کافی ہو گی۔

میں نے بی ایس کیمسٹری صرف اور صرف ریاضی کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ پھر BA کیا اور ایم اے ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیا۔ تو شکر ہے ان دونوں ڈگریوں میں ریاضی کہیں بھی نہیں ہوتا۔
خیر بات ہورہی تھی ٹیچر کی تو بچوں کی بات رہی ایک طرف ہم اب یونیورسٹی لیول پے بھی ان اساتذہ کو پسند کرتے ہیں جو کلاس میں دوستانہ ماحول رکھیں، پڑھائیں بھی اور سبق سے ہٹ کر بھی گفتگو کریں۔

یونیورسٹی لیول کے تقریبا تمام اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ پڑھانا کیسے ہیں مگر چھوٹے لیول پر مجھے بعض اساتذہ کے طریقہ کار پر ترس آتا تھا۔ مثلا جب استاد نے گپ شپ یا آنکھ لگانی ہوتی تو ہمیں ایک ہی لائن کو سینکڑوں دفعہ لکھنے کا کہہ دیتے۔
تعلیم کی جو جدید تعریف کی جا رہی ہے وہ 3Cs ہے۔
پہلا سی (C) Confidence ہے۔
دوسرا سی(C) Creativity ہے۔
اور تیسرا سی (C) Character ہے۔


ہمارے تعلیمی اداروں میں بجائے ان چیزوں کو پروان چڑھانے کے الٹا برباد کیا جاتا ہے۔ آج ہماری خصوصاً میرے confidence  کی حالت یہ ہے کہ یونیورسٹی لیول پہ آکر بھی سٹیج پہ کچھ بولنا پڑے تو آواز اور ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ Creativity کی حالت یہ ہے کہ ہم آج کوئی ایسا آئیڈیا یا ایجاد سامنے نہیں لا پا رہے جو دنیا کے لئے مفید ہو اور رہی بات character کی تو اس کی تو بات ہی نہ کریں۔

یہاں ہم سب کا کریکٹر ڈھیلا ہے۔ میرا ایک کلاس فیلو تھا وہ کہتا تھا کہ میں جب افسر بنوں گا تو خوب مال بناؤں گا۔ یہ تو سوچ ہے ہماری۔ کہتے ہیں کردار دو طرح سے بہتر ہو سکتا ہے۔ یا تو آپ کسی ایسے کو رول ماڈل بنائیں جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہو اور اپنے آپ کو اس کے رنگ میں رنگتے ہوئے برائیوں اور غلطیوں سے دور ہوتے جاؤ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کا سسٹم اتنا طاقتور ہو کہ آپ اس کے ڈر سے کوئی غلط کام نہ کریں۔

جب آپ کو پتہ ہوگا کہ اگر آپ نے کوئی غلط کام کیا تو ملک کا وزیراعظم بھی آپ کو سزا سے نہیں بچا سکے گا تو آپ کچھ بھی غلط کرنے سے پہلے سوچیں گے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں موجود اساتذہ کا فرض نبھانے والے لوگ شاید خود بھی معاشرے کے کارآمد افراد نہیں ہیں تو وہ معاشرے کے لیے کارآمد انسان کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :