
قومی مقصدیت سے عاری ہجوم
اتوار 20 جولائی 2014

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
علم و ہنر کی لگن رہی ،نہ بلندی کردار کا شوق،نہ حسرت کمال رہی،نہ زوق جمال،نہ شعرو سخن کا فسوں رہا،نہ ستاروں پر گھمنڈ ڈالنے کا جذبہ ۔ اک ان دیکھی منزل کی طرف اندھا سفر جاری ہے۔سہولیات تو مل گیں مگر راحت کہیں گھو گئی۔ آدمی کی سب سے قیمتی متاع وقت ہوتا ہے بدقسمتی سے آج یہ سب سے ارزاں ہے کبھی کبھی یوں لگتاہے کہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے ہمیں بے سمت کردیاہے۔20کروڑ کے ہجوم میں اشرافیہ کے علاوہ کئی گروہ بن گئے ہیں پہلا گروہ جس کا میں بھی رکن ہوں آلائش زندگی کی دوڑ جس میں ایسا”جامد“ہوچکاہوں کہ بے حسی کا بت بن گیا ہے۔عہد حاضر کے آدمی کے المیوں کو امریکی شاعر ولیم ڈیوس نے کمال جہاندیدگی سے خوبصورت انداز سے نظم کیا ہے۔
We have no time to stand and stare
افسوس آدمی کے پاس فطرت سے ہم کنار ہونے کی فرصت نہیں ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس کی زندگی کا مقصد نت نئے موبائل فون ، تیز رفتار انٹر نیٹ، اور سوشل میڈیا پر لغویات میں مگن رہتاہے۔مجھ جسے لاکھوں نام نہاد پڑھے لکھے لوگ گھنٹوں فیس بک اور ٹیوٹر پر بے مقصد بحث،سکینڈلز کی کھوج اور لغویات سے لطف اندوز ہونے میں گزار دیتے ہیں۔اس سوشل میڈیا نے تو ایسا سحر زدہ کیا ہے کہ بڑے بڑے ”دانشوروں“ نے اپنے اکاؤنٹ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے سٹاف بھرتی کررکھاہے۔
اک بے فیض معلومات کا طوفان ہے جس نے اہل پاکستان کو اسیر کررکھاہے۔خبر میڈیا سے سوشل میڈیا تک پہنچی ہے تو ”جبر “ بن جاتی ہے اور ہمیں اس ”خبر“ کا شاید نشہ سا ہوگیاہے۔ اس روز ناجانے ساقی کی ”جادو نگاہوں“کا اثر کم تھا کہ میں دو قدم آگے بڑھ کر بک شلف کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ کتابوں کا جائزہ لیتے ہوئے نظم ڈاکٹر محمد سلیم کی کتاب”بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلم مشاہیر“ پر ٹھہر گئی۔
تم پر قربان ہوگئی ہوگئی
ڈاکٹر محمد سلیم پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ طبیعات کے چیئرمین،ہائی انرجی فزکس کے ڈائریکٹر اور فیکللٹی آف سائنس کے ڈین رہ چکے ہیں۔ وہ امریکہ میں انسٹی ٹیوٹ فاربیسک ریسرچ کے فزکس کے اعزازی پروفیسر ہیں۔ آپ کے سو سے زائد مقالات معروف غیر ملکی تحقیقی جرئد میں چھپ چکے ہیں۔ فزکس کے مختلف موضوعات پر آپ کی کتابیں برطانیہ اور امریکہ کے مشہور پبلشرز کی طرف سے شائع کی جاچکی ہیں۔ آپ امریکہ سے شائع ہونے والے فزکس کے ممتاز تحقیقی جریدے(hardonic Journal)کے مرید بھی ہیں۔اس کتاب سے پہلے اردو زبان میں ان کی تین کتابیں ”دارہ شکوہ” ، ” قائداعظم محمد علی جناح“ اور ”علامہ اقبال کی سیاسی زندگی“ چھپ چکی ہیں۔
ان ہمہ جہت شخصیات کے اوصاف کا کس خوبصورت انداز سے ڈاکٹر محمد سلیم سے اپنے دیپاچے میں تذکرہ کیاہے۔”ہم تاریخ کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں تو بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلم مشاہیر کے کارناموں کی روشنی سے عالم اسلام بقعہ نور بنا نظر آتاہے۔ ان مشاہیر میں تراشے ہوئے ہیروں جیسی چمک دمک تھی اور ان میں سے ہر ایک ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔اب اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ نئی نسل اپنے اسلاف کے علم و عمل،بے پنا فراست و ذہانت،کمال کی سیاست،بے مثل خطابت،بے نظیر تفسیرقرآن،دل کش و دلآویز انشا پردازی،بے کراں فصاحت و بلاغت سے بے خبر ہوتی جارہی ہے۔انہیں اس کا علم ہی نہیں کہ ہمارے اسلاف نے سربلندیوں کی کہکشاں کی ہمسری کا دعویٰ کیا تھا اور خود عروج و کمال نے ان کی عظمت کے قدم چومے تھے۔وہ دلوں ہی پر نہیں،دماغوں پر بھی حکومت کرتے رہے۔ اس کی سعی سے انگریز سامراج کی اقتدار کا وہ سورج جو کبھی غروب نہیں ہوتاتھا،سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔اسلام کی عظمت کے لیے مسلمان قوم نے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور اپنے خو ن سے سوگھی زمین کو گلنارکیا جس سے آزادی کا پھول کھلا۔ان میں سے بعض کے علمی کاموں کی روشنی سے نئی نسل کے دل و دماغ جگمگا اٹھے۔“
اس کتاب میں جن عالی مرتبت شخصیات کے حوالے سے مضامین شامل ہیں انہوں نے اپنی بے لوث کاوشوں سے مسلمانان برصغیر کو سیاسی شعور اور ملی فکر سے روشناس کروایااور آج ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔قائداعظم کی شخصیت سے تو ہر نوجوان شعورکی آنکھ کھولتے ہی متعارف ہوجاتا ہے گو اب کچھ ”دانشوروں“ کویہ بات ہضم نہیں ہوتی اور وہ بانی پاکستان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی درفیطنی چھوڑتے رہتے ہیں اللہ تعالی ڈاکٹر صفدر محمود اور حامد میر جیسے عاشق پاکستان و بانی پاکستان کو سلامت رکھے جو ان نام نہاد دانشوروں کی در فیطنیوں کا جواب دلیل اور تاریخی حوالے سے دیتے رہتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تحریک پاکستان سے وابستہ دیگر مشاہیر کا تذکرہ اب کتاب میں ملتانہ ہی خطاب میں۔
اگر جناب مختار مسعود کی کتاب” آواز دوست“ نہ پڑھی ہو تو شاید میں امیر شریعت عطا ء اللہ شاہ بخاری ، شاعر و سیاستدان اور عجزو انکساری کے پیکر مولانا حسرت موہانی کے بارے میں کبھی بھی جان نہ پاتا اسی طرح علمی و ادبی حلقوں میں مولانا سلمان ندوی کے اسلامی تعلیمات کے فروغ خصوصاً سیرت نبویﷺ پر خدمات کا ذکر نہ سنا ہوتا تو اس عظیم شخصیت کے تعارف سے بھی محروم رہتا۔
مسلم برصغیر کے مشاہیر کی بلندی کردارکا اندازہ کرنے کے لیے مولانا حسرت موہانی کے بارے میں مضمون کا یہ پیرا ملاحظہ کیجئے۔
”ان کے فقروو قناعت کے واقعات پڑھ کر ان کی عظمت کا شدید احساس ہوتاہے۔کرشن بابو شرمارقم طراز ہیں کہ ایک مرتبہ حسرت کے ایک نیاز مند ان سے ملنے آئے۔اس وقت مولانا کچھ لکھ رہے تھے۔ان کے آنے پر مولانا لکھتے بھی رہے اور ساتھ ساتھ ان صاحب سے باتیں بھی کرنے لگے۔پشت پر ایک پھٹا پرانا پردہ لٹک رہاتھا۔مولانا پردے کے پیچھے ہاتھ ڈال کر کچھ نکالتے اور منہ میں رکھ لیتے اور اپنے سامنے دیسک پر رکھی ہوئی گڑکی ڈلی سے تھوڑا سا گڑ کھالیتے۔ملاقاتی نے کہا حضرت آپ کیا کھارہے ہیں۔کچھ خادم کو بھی عطاء ہو۔مولانا نے پردے کے پیچھے سے مٹی کا ہنڈا نکال لیا جس میں سوکھی روٹیاں پانی میں بھیگی ہوتی تھیں۔کہنے لگے یہ فقیروں کاکھاناہے تم نہ کھا سکو گے۔ملاقاتی آب دیدہ ہوگیا۔مولانا نے کہا آج تیسرافاقہ تھا شکر ہے سوکھی روٹی میسر آگئی۔“
تحریک پاکستان کے لیڈراپنے قائد محمد علی جناح کی طرح راست کردار،ایماندار اور مولانا حسرت موہانی کی طرح عجزو انکسار اور عظمت کردار کا پیکر تھے۔اس سے بڑھ کر ہمار المیہ اور کیا ہوگا کہ آج ہم نے لٹیروں کو لیڈر بنالیاہے۔پاکستان کو خوشحال اور مستحکم ملک بنانے کے لیے ہمیں نوجوان نسل کو مسلم مشاہیر کے ذاتی اوصاف اورقومی خدمات سے متعارف کروانے کا اہتمام کرناہوگا ورنہ ہجوم ہجوم ہی رہے گا اور پاکستان قومی مقصدیت سے عاری اس ہجوم کا مسکن ۔ہم نے یہ وطن جہد مسلسل ،بے شمار قربانیوں اورنفاذ اسلام کے وعدے پر مانگا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانان برصغیر کو پاکستان کا تحفہ27رمضان المبارک کو عطا کیا تھا ۔اورماہ رمضان بھی ہمیں ایک قوم بننے اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ یاد دلا رہاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.