
مرد حر کی پریشانی
ہفتہ 9 فروری 2019

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
جس سیاسی پارٹی کے وہ شریک چیئرمین ہیں اسے ہمیشہ سے یہ ملال رہا کہ انکی قیادت کو جمہوری و پارلیمانی مدت پوری کرنے ہی نہیں دی گئی، مقتدر طبقات نے ہمیشہ ان کے اقتدار پر شب خون مارا ہے اگر انکی پارٹی اپنے لیے اس عمل کو پسند نہیں کرتی تو اسے یہ حق کیسے پہنچ سکتا ہے کہ وہ کسی دوسری منتخب حکومت کو غیر جمہور ی انداز میں اقتدار سے نکال باہر کرنے کی سعی کرے ۔
ہمارا گمان یہ ہے کہ اس طرز کی امداد کی دہائی دے کر موصوف نے اپنا کیس کمزور کرنے کی جسارت کی ہے، جمہوریت کیلئے پارٹی قربانیوں کے دعوی میں اب وہ رنگ ترنگ دکھائی نہیں دے گا جس پر وہ ہمیشہ نازاں رہے ۔سابق صدر مملکت آخر اس راہ پر کیوں چلنا چاہتے ہیں جسکا راستہ غیر جمہوری قوتوں کی جانب بڑھتا ہے اگر انہیں منتخب حکومت سے کوئی پر کاش ہے تو اس کیلئے دستوری طریقہ انکی” سہولت “کیلئے میسر ہے یہ پارلیمانی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے ہم خیال پارلیمنٹ میں پیدا کریں سرکار کے خلاف چارج شیٹ لائیں او رووٹنگ کے ذریعہ اپنی جمہوری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ” تبدیلی “ کے مرتکب ہوں جس کے لیئے وہ میڈیا سے دست دراز ہیں۔
ہمارا وہم ہے کہ انہیں اس طریقہ کے اختیار کرنے میں کامیابی کی بجائے ناکامی صاف دکھائی دے رہی ہے اس لیے وہ پارلیمنٹ سے باہر رہ کر رائے عامہ ہموار کرنے کی ناکام کاوش میں مصروف ہیں اسکی بڑی وجہ تو ان کا” نامہ اعمال“ ہے جس سے ہر ذی و شعور آگاہ اور اس راہ پر شریک سفر ہونے سے گریزاں ہے۔
ہمیں تو یاد نہیں پڑتا کہ موصوف نے اپنے دور اقتدار میں جمہوریت یا قومی اداروں کی مضبوطی کیلئے کوئی کارنامہ ہائے انجام دیا ،جمہوریت کے فروغ کیلئے کوئی مالی قربانی دی ہو ۔ان کے عہد میں وہ سب کچھ ہوا جسکا کسی جمہوری دور میں تصور بھی عنقا ہے اگرچہ ” مال پانی “ بنانے کی شہرت تو وہ اپنی زوجہ مرحومہ کے ادوار ہی میں پاچکے تھے تاہم انہوں نے عروج اس وقت پایا جب بلا شرکت غیرے مسند اقتدار پر براجمان رہے، قوم بیچاری تو جمہوریت کے ثمرات آنے ہی کی منتظر رہی ۔جب ایوان سے رخصت ہوئے تو لوڈشیڈنگ سے لے کر بدعنوانی تک ، دہشت گردی کی آ گ سے لے کر بھتہ خوری تک کئی عوارض عوام کو لاحق تھے۔ انکی ” گڈ گورننس “ کے مابعد اثرات پوری ملک پر اس طرح مرتب ہوئے کہ انکی پارٹی قومی سطح سے سرک کر صوبائی مقام پے آکر ٹھہر گئی۔
اس پارٹی کیلئے نرم گوشہ اور بانی خاندان سے دیرینہ تعلق رکھنے والے گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے، آپکی پیسے سے محبت دیکھ کر انہوں نے قومی منظر پے آنا ہی چھوڑ دیا۔ آ پ کا ہی” فن مہارت“ ہے کہ آپ نے سسرالی خاندان کا لاحقہ اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ لگا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھونڈی کاوش کی مگر ” اہل دل “نے اسکو بھی تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا جمہوری اقدار اور روایات کی حامل پارٹی کا آپ ہی ہاتھوں ”سیاسی قتل “خو داک بڑا سانحہ ثابت ہورہا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آ پ اس کا ادراک کرتے ہوئے پارٹی کیلئے درد رکھنے والوں کو اکٹھا کرتے اپنی ناعاقبت اندیشی پر افسردہ ہوتے اور انہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر بطور مسافر اس سیاسی گاڑی میں سفر کرتے تو بعید نہیں کہ یہ اپنی سیاسی منزل دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔لیکن آپ نے اس وقت سے مفادات کی عینک لگا رکھی ہے جس میں پارٹی کارکن تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ کاش! اپنے ورکرز کی خوشیوں کا خون نہ کرتے تو آج آپ کو کسی اور سے مدد طلب کرنے کی حاجت پیش نہ آتی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ میسر حالات میں آپکے گرد گھیرا منی لانڈرنگ کیس کی بدولت تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے ”ڈیل اور ڈھیل “ دونوں طرز کی پیکج میں آپ کا اسماء گرامی شامل نہیں ہے نہ ہی آپ کو فضائی اڑان بھرنے کا موقع میسر آنے کی توقع ہے ان وجوہات نے آپ کومیڈیا سے مدد طلب کرنے پر اکسایا ہے، اس میں آپ کو کامیابی کی کتنی توقع ہے اسکا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن جس عوام کے ساتھ آ پ نے عہد اقتدار میں ہاتھ کیا ہے اسکی خواہش یہ ہے کہ قوم کا پیسہ واپس کرکے آپ بھی ”خالی ہاتھ“ ہی بیرون ملک لوٹ جائیں۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ کی شفقت پدری آپ کے لال کو سیاسی میدان میں خاصی مہنگی پڑرہی ہے پارلیمنٹ میں اس نوعمری میں انکے اظہار خیال نے اک امید باندھ دی تھی کہ پیپلز پارٹی کے ابھرتے ہوئے لیڈر پارٹی کارکنوں کی امیدوں پر مرکز قرار پائیں گے لیکن دکھائی یو ں دیتا ہے کہ مرد حر کی پریشانی کے بوجھ تلے اس کا سیاسی مستقبل اور بھی مخدوش ہوجائے گا۔
ہماری یہ بھی خواہش ہے اب قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین ذاتی مفادات کی اسیر سے آزاد ہوکر قومی سوچ کو فروغ دیں معیشت اور جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لیے فعال کردار ادا کریں ستر سال سے قوم انکی نالائقیوں کا” خراج“ دے رہی ہے کیا اب وقت آن نہیں پہنچا کہ عوام کو بھی آسودگی حاصل ہوجائے؟
روایت ہے کہ اک دفعہ پشاور میں اک بڑا جلوس نکلا جس میں بڑے بڑے صاحبان ریش اور ملا بھی تھے اور قائداعظم کو ساتھ لے جارہے تھے سردار عبدالرب نشتر مرحوم نے قائد سے مخاطب ہوکر کہا یہ ملا لوگ کسی کی قیادت نہیں مانتے اور خصوصاًایسوں کی جنکی داڑھی ہو نہ مونچھ مگر آپ کے سامنے ان سب نے سرتسلیم خم کیا ہے قائداعظم نے جواب دیا ” تم جانتے ہو کیوں ؟اس لئے کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں اپنے لیے کچھ نہیں کررہا “ ہماری قومی سطح کی سیاسی قیادتوں نے اپنے کی بجائے اگر قوم کیلئے کچھ کیا ہوتا تو انہیں نیب کے مقدمات کی اذیت کا سامنا ہوتا نہ ہی کسی سے مددطلب کرنے کی ضرورت پیش آتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.