
سزاوار
پیر 21 ستمبر 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
فنون لطیفہ سے وابستہ افراد جہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں وہاں وہ سماجی بگاڑ کی نشان دہی بھی کرتے ہیں،اگرچہ مثالی گوورننس تو کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں دکھائی نہیں دیتی مگر وہ سرکاری ادارے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے انکی خامیاں زیادہ نمایاں ہوتی ہے،جن میں ایک ادارہ پولیس کا بھی ہے،جب بھی کوئی بڑا سانحہ رونماء ہوتا ہے تو سب سے پہلے پولیس اور سیکورٹی ادارے ہی زیر عتاب آتے ہیں،ہرحکومت یہی بتاتی آئی ہے کہ ریفارمزکے ذریعہ پولیس کو عوام دوست بنایا جارہا ہے،تعلیم یافتہ افراد کی بھرتی سے پولیس کلچر کو بدلا اورسیاسی مداخلت سے پاک کیا جارہا ہے ،تاحال مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ در پیش ہے ۔
موٹر وے پر ریپ کے تازہ سانحہ نے ایک بار پھر نظام پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دئے ہیں،اس واقعہ کے بعد راقم کو تحصیل کھاریاں کے گاؤں کتوار اپنے خالو طالب حسین کی تعزیت کے لئے جانا پڑا،ہم نے، لاہور سیالکوٹ موٹر وے کا راستہ اختیار کیا، واپسی پر گاڑی میں پٹرول ختم ہوگیا،تو مدد کے لئے موٹر وے پولیس کو کال کی ،کافی دیر موبائل فون پر ٹیپ چلتی رہی،رابطہ نہ ہو سکا، اگر ہو بھی جائے تو سب سے پہلے لوکیشن بتانا پڑتی ہے ، جہاں ہر سو اندھیرا ہو ،مسافر بھی اس راستہ پر پہلی دفعہ عازم سفر ہو تو بڑی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے ،ہماری رائے ہے کہ ایسا سافٹ ویئر موٹر وے انتظامیہ متعارف کرواکر عوام کو آگاہی دے کہ جونہی ہیلیپ لائن پر کسی کی کال وصول ہو، لوکیشن از خود مذکور ہو جائے، گھپ اندھیرے میں فیملی کے ساتھ ایک انجانا خوف ضرور موجود تھا ،کسی طرح ہم ٹول پلازہ پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے،تو موٹر وے موبائل ورکشاپ سے اتنا پٹرول مل گیا کہ پمپ تک رسائی آسان ہوگئی،تاہم یہ سہولت صرف لاہور ،ملتان موٹر وے پر میسر تھی،سیالکوٹ،لاہور موٹر پر ویرانی سی ویرانی دیکھی ،ایف ڈبلیو او سے متعلقہ موٹر سایئکلسٹ گشت پر تھے، یہ شاہراہ ابھی تک مکمل آپریشنل نہیں ہوئی ہے۔
رات کی تاریکی میں اکیلی عورت کے سفر کی بابت سی پی او کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا،لیکن باامر مجبوری کسی بھی شہری کو سفری ضرورت کا سامنا ہو سکتا ہے ، شاہراہوں کو محفوظ بنانا تو سرکار کی ذمہ داری ہے۔ماضی میں گڈز ٹرانسپورٹ پرڈکیتی سے تاجروں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھاتو پرویز الہی جب وزیر اعلی پنجاب تھے انھوں نے شاہراہوں پر پولیس چوکیاں بنواکر لوٹ مار کی روک تھام کو یقینی بنایا تھا۔بعد ازاں یہ
منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا، فنڈز کی کمی اور دیگر مسائل نے ان پوسٹوں کو غیر فعال کر دیا ۔
ہماری غالب آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے،جہاں لوگ ایک دوسرے کے شناسا ہوتے ہیں، جرائم پیشہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے،،جب ایسے افراد کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے تو وہ شہروں کارخ کرتے ہیں جہاں مافیاز انھیں پناہ دیتے ہیں،کسی زمانہ میں ان افراد کے بھی کچھ راہنماء اصول ہوا کرتے تھے ایک تو یہ اپنے علاقہ میں چوری یا ڈکیتی نہ کرتے اور نہ ہی کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ،یہ شہروں سے دور بسیرا کرتے ،انھوں نے بعض قواعد از خود طے کر رکھے ہوتے ،اپنے دوست کے علاقہ میں بھی ڈکیتی کو برا جانا جاتا تھا، پورا سماج ہی اقدار اور روایات شکن ہوچکا ہے تو ان افراد سے کیا شکوہ، لیکن ان میں سے زیادہ تر اس نظام کے ستائے ہوئے افراد ہی جرم کی اس دنیا میں قدم رکھتے ،پھر اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ اس سے وآپسی ممکن نہیں ہوتی۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جرائم پیشہ افراد سے سلوک کا روایتی طریقہ ہی مروج ہے،جو ان میں باغیانہ روش کو فروغ دیتا ہے،اس کے برعکس مہذب دنیا میں اس طبقہ کو کارآمد شہری بنانے کی سعی کی جاتی ہے، موٹر وے سانحہ میں ملوث نامی گرامی مجرم کا تذکرہ میڈیا پرہورہا ہے اگر اسکو سابقہ جرم پرقرار واقعی سزا مل چکی ہوتی تو ہماری جگ ہنسائی نہ ہوتی، اس کا اشتہاری ہو کر بھی یوں بلاخوف وخطر نئی مگر سنگین وادات کرنے کا واضع پیغام یہ ہے کہ وہ ریاست کے کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا ہمارے ہاں قانونی سقم شہری کو تحفظ دینے کی بجائے مجرم کا وفادار بن جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک سرکاری پولیس ملازم کی سرارہ دوران ڈیوٹی کوئٹہ شہر میں ایک سردار ڈرائیور کے ہاتھوں ہلاکت اور بعد ازاں اسکی بریت نے نظام عدل پر بھی تحفظات کا اظہار کر دیا ہے،سانحہ موٹر وے اور ایک سرداد کی بریت پر عوام میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تھانہ کی حدود میں ہر تھانیدار بستہ ب کے تمام افراد سے بخوبی آگا ہ ہوتا ہے وہی بعد ازاں ا نکے مخبر بنتے ہیں،ان کے ذریعہ سے وہ اپنے کام نکلواتے ہیں،دوسرا المیہ یہ ہے کہ عوام پولیس دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس نوع کے مجرم بارے مطلع کر بھی دیں تو انکو دشمنی مول لینے کے ساتھ ساتھ پیشی بھی بھگتنی پڑتی ہے،خود پولیس کے جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں،پولیس کے خود کار نظام میں بعض شرفاء ملازم اپنے ”پیٹی بھائیوں “کے ہاتھوں شدید اذیت اٹھاتے ہیں۔
پولیس کے نظام کو جب تلک جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا، اس ادارہ کا محاسبہ نہیں ہوتا، سنگین جرائم کی بڑھتی شرح سرمایہ کاری کے لئے بھی اچھا شگون نہیں ہے، البتہ جرائم کے دیگر اسباب کو نظر انداز کرنا بھی غفلت ہوگی، جس میں طبقاتی، سامراجی نظام،بے روزگاری، غیر تعلیم یافتہ سماج قابل ذکر ہیں، محض مجرم کو سزا دینا کافی نہیں انھیں بھی سزا وار قرار دیا جائے جن کے روئیے مجرم پیدا کر نے کے مرتکب ہوتے ہیں۔کیا مقتدر طبقات کو بھی بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے جو اس فرسودہ نظام کو اپنے مفادات کے لئے پروان چڑھاتے رہے، ادارہ میں سیاسی مداخلت کو اپنا حق سمجھتے رہے۔
خاتون کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بعدمجرم کے ساتھ اس بنیاد پر نرم گوشہ رکھنا اس سے بھی بڑا جرم ہے کہ سر عام پھانسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ،سنگین جرائم پر غیر فطری سزا کے اطلاق کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے،جن سزاؤں کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم واضع ہے اس میں لیت ولعل سے کام لینا حکم عدولی کے مترادف ہے۔اپوزیشن کی بجائے سرکارکو فنون لطیفہ سے متعلق لوگ جب آیئنہ دکھائیں تو سمجھ لیں صورت حال سنگین ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.