سچ تو یہ ہے

منگل 26 جنوری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کسی بھی عظیم سیاسی راہنماء کو اسکی تقاریر،فرمودات، تحریروں اور سیاسی زندگی کے حوالہ سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے،بانی پاکستان کا نقطہ نظر،تصور پاکستان، جدوجہد اور وژن اِنکی تقاریر سے بالکل واضع ہے،ڈاکٹر صفدر محمود شِکوہ کناُں ہیں کہ َبعض،مورخ، دانشور، کالم نگار، اینکر اور ایجنڈا بردار حضرات تقار یرِ قائدکو سمجھنے،بیانات کو پڑھنے کی بجائے،سیاق وسباق سے کاٹ کر اپنے مطالب ڈھونڈنکالتے ہیں،اور پھر اِن جملوں پر اپنے فلسفہ،خواہشات کا خول چڑھا کرمخصوص فکری ڈھول کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

انفارمیشن کے عہد میں کچھ بلاگرز بھی اس کارستانی میں شریک ہیں،اس کے ذریعہ سے وہ نسل نو کے اَذہان کو پرَاگندہ کرتے ہوئے قائد اعظم کے کردار کو داغدار کرنے کی حماقت میں مصروف ہیں۔

(جاری ہے)


موصوف کو علمی،ادبی حلقوں میں ممتاز مقام حاصل ہے، پاکستانیت،قائد اعظم اور تحریک پاکستان کا وہ مستند حوالہ ہیں،انکی حب الوطنی مثالی ہے، جب بھی کوئی قلم کار،مصنف علمی اور فکری بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے،تو ڈاکٹر صفدر محمود دلائل کی روشنی میں اسکا گھر پورا کر دیتے ہیں۔

اس مقصد کے لئے انھوں نے کتاب بعنوان”سچ تو یہ ہے“ رقم کی ہے،لکھنے کا مقصدتاریخ پاکستان کو مسخ کرنے کی سازش کو ناکام بنانا،قائد اعظم سے بدظن کرنے والوں کا محاسبہ کرنا اور سچ کو سامنے لانا ہے۔کتاب کوقلم فاونڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب رقم کرتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل 101 بار او ر اسکے بعد14دفعہ برملا اور واشگاف الفاظ میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کا آئین،نظام، قانون،انتظامی ڈھانچہ کی بنیاد اِسلامی اُصولوں پر رکھی جائے گی،اور مسلسل کہا کہ اِسلام مکمل ضابطہ ہے سیرِت النبی ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے،،جمہوریت، مساوات،انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا،اسلام نے جمہوریت کی بنیاد1300 قبل رکھ دی تھی ۔


بانی پاکستان اس ریاست کو اسلامی بنانا چاہتے تھے مذہبی نہیں،اسکا حوالہ یکم فروری 1948کا امریکی عوام سے ریڈیوخطاب ہے اسی طرح 19فروری1948کوآسٹریلیا کے عوام کے نام تقریر میں کہا کہ”پاکستانی ریاست میں ملاوّں کی حکومت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی“ اس لئے کہ اسلامی ریاست کی سیاست،طرز حکمرانی،قانون کی تشکیل،تنقید،تعمیر کو اسلام سے آزاد نہیں کیا جاسکتا،مُسلم ریاست میں غیر اِسلامی رسومات وعادات،شراب،جُوا،زنا،ملاوٹ،ذخیرہ اندوزی،چوری کی اجازت نہیں دی جاسکتی،لیکن سیکولرازم کے پردہ میں دو قومی نظریہ کی نفی کرنے کے در پے حضرات کے لئے وبال جان یہ تصور ہے کہ اسلام ضابطہ حیات ہے،جو ذاتی،سیاسی، ریاستی زندگی حتیٰ کہ ہر شعبہ پر محیط ہے ۔


ڈاکٹر محمود فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں روشن خیالوں کے دو نمایاں گروہ ہیں،اوّل، اپنی روشن خیالی کو اسلامی و دینی حدود کا پابند سمجھتے ہیں، دُوم وہ جو روشن خیالی کو اِن حدودسے ماوراء خیال کرتے ہیں،بعض کو تو ٹی وی پروگراموں میں یہاں تک کہتے سنا کہ ہمیں
 قرآن سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہئے،تاریخی تناظر میں1940 تا 1948قائد اعظم کی ساری تقاریر کا جائزہ لیں تو11اگست کی تقریر کا مدعا فقط یہ تھا کہ اقلیتوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے،غیر مسلم اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں گے،ریاست اِن پر مذہب مسلط نہ کرے گی۔


قیام پاکستان کے فوراً بعد صوبوں میں اسلامی کنسٹرکشن بورڈ تشکیل دئے گئے،جن کے فرائض منصبی میں عام شہریوں کی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے سفارشات مرتب کرنا تھا،انکی ہی سفارش پر پنجاب،اور سرحد میں ستمبر 1948 میں شراب پر پابندی لگا دی گئی۔جو حضرات اسلام کے نام پر لبرل یا سیکولرازم کی آڑ میں مادر پدر آزادی و اخلاقی باختگی پھیلاتے ہیں وہ اسلامی جمہوریہ کے قانون کو توڑتے اور اسلامی حدود کو پامال کرتے ہیں۔


سچ تو یہ ہے میں ڈاکٹر صاحب نے پروفیسر ہود بھائی کے اس بیان کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے حقیقت کو عیاں کیا ہے،پروفیسر کے بقول پاکستان ٹوٹنے کا سبب قائد کا وہ بیان ہے جو انھوں نے مشرقی پاکستان کے دورہ پر اُردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، ڈاکٹر محمود کہتے ہیں کہ ہود بھائی کو علم ہی نہیں،قائد اعظم نے واضع طور پرکہا تھا کہ آپ اپنے صوبے میں سرکاری،تعلیمی زبان بنگالی رکھیں، لیکن قومی زبان ایک ہوگی، معصوم ہود بھائی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دستور ساز اسمبلی نے25 فروری1948کو اردو کو قومی زبان قرار دیا تو بنگالی اراکین کی اکثریت نے اِس قانون کی حمایت کی تھی۔


ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ان پرحیرت ہوتی جو مجیب الرحمان کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں،خود مجیب نے 6 جنوری1972کو برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ1948 ہی سے آزاد بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کوشاں تھا،اس دعوے کی حمایت میں اسکی بیٹی حسینہ واجد نے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ جب وہ اپنے والد گرامی کے ساتھ لندن کے اپارٹمنٹ میں موجود تھیں،وہاں چند ہندوستانی”را“ افسران آیا کرتے تھے اور بنگلہ دیش کی آزادی کی منصوبہ بندی ہوتی تھی، محترم ڈاکٹر صاحب سوال اُٹھاتے ہیں کہ دشمن کے ساتھ ساز باز کر کے ملک توڑنا کونسی حب الوطنی ہے؟ مجیب کی سیاسی وارث طویل عرصہ گذرنے کے باوجود اِن حضرات کو کیوں پھانسی پر چڑھا رہی ہے، جنہوں نے 1971 میں پاکستان کو متحد رکھنے کی جدوجہد کی تھی۔


ہمارے ہاں تاریخی غلطی دہرائی جاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی کے دست شفقت سے ہوئی، جبکہ ڈاکٹرصاحب کے بقول بانی پاکستان نے نئی کابینہ سے حلف لیا اور پھر اسٹیج سے نیچے آکر پاکستان کا جھنڈا لہرایا،جھنڈا فضا میں پھیلا تو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی،گورنر جنرل کو گارڈ آف آنرپیش کیا گیا،پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کا آغاز سورة النصر کی تلاوت سے ہوا، جب قائد محترم اپنی نشست پر بیٹھ گئے پھر باقی مہمان بیٹھے۔

ڈاکٹر محمود کی رائے میں ایک جھوٹ تواتر سے بولا جاتا ہے کہ بانی پاکستان نے جگن ناتھ سے ترانہ لکھوایا تھا اس میں رَتی بھر بھی حقیقت نہیں ہے۔بانی پاکستان اس نام سے مانوس
 ہی نہ تھے۔صوبہ سرحد کی روحانی شخصیت پیر آف مانکی شریف نے قائد اعظم کو قرآن پاک،جائے نماز اور تسبیح تحفہ میں بھیجی،قائد اعظم نے جواباًشکریے کاخط لکھا اور کہا کہ آپ نے قرآن اس لئے بھیجا کہ میں پڑھ کر اللہ کے احکام جانوں اور نافذ کروں،جائے نماز اس لئے کہ جو انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے ،قوم اسکی اطاعت نہیں کرتی اور تسبیح اس لئے کہ رسول اللہ پر دُرود بھیجوں جو درود نہیں بھیجتا اس پر رحمت نازل نہیں ہوتی۔

جب یہ خط پیرجماعت علی شاہ کو سنایا گیا تو انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم جناح اللہ کے ولی ہیں۔
ڈاکٹر صفدرپُر شکوہ ہیں کہ سیکولر دوست اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ بنیادی تاریخی حقائق کو بدل دیتے ہیں اور ایسے بے بنیاد دعوے کرتے ہیں جن کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہوتا۔
انکی خواہش ہے کہ قائد اعظم کی عظمتِ کردار کو داغدار کرنے، قراداد پاکستان کا کریڈٹ برطانیہ کو دینے والے مورخ ،دانشور ،سیاست دان قوم سے معافی مانگیں، موصوف کابطور محقق وجود اس قوم کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں،ہمیں ممنون ہونا ہے کہ وہ منفی پروپیگنڈہ کی راکھ سے سچ نکال کر نسل نو کی راہنمائی فرما کر بہترین قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

دوسرا سچ یہ ہے کہ ہماری رسوائی، بے توقیری کے پیچھے فرمودات قائد کی نافرمانی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :