تجارتی جنگ

ہفتہ 16 مئی 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

عالمی وباء نے جس انداز میں سماجی طور طریقے بدل کر رکھ دیئے ہیں ، کساد بازاری، بے روزگاری اور دیگر مسائل کا پورے عالم کو سامنا ہے گمان ہے کہ اب آیندہ قبل مسیح کی بجائے قبل از اور بعد کرونا کی نئی اصطلاح وجود میں آئے گی،کرونا کی گرد بیٹھنے سے خوف کی فضاء میں بھی کمی آرہی ہے، اکثر ممالک میں جزوی لاک ڈاون اختیار کیا جارہا ہے، لیکن اس کے بطن سے نئی ”سازی تھیوری“ بھی سامنے آرہی ہیں ،جب سے دنیا گلوبل ولیج بنی ہے، معلومات کا ایک خزینہ سب کی دسترس میں ہے، ہر لمحہ نئی خبر سوشل میڈیا سے مل رہی ہے، ایک زمانہ تھا جب اکلوتے ریاستی میڈیا پر ہی اکتفاء کرنا پڑتا تھا، اس دور میں سچ کی تلاش جان جوکھوں کا کام تھا، معروف ادارے اس کمی کا فائدہ اٹھا کر پروپیگنڈہ پر مبنی معلومات فراہم کرتے تھے، بعض اپنا اعتماد بھی کھو بیٹھتے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ نائین الیون کی کہانی مظلومیت کے انداز میں پیش کر کے اسکی آڑ میں وہ مقاصد حاصل کیے گئے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے، عراق میں کیمیکل ہتھیاروں کی جھوٹی موجودگی کا واویلا کرکے مشرق وسطٰی میں تباہی کا سامان پید کیا گیا، یہی طریقہ واردات بائیو لاجیکل جنگ میں اپنانے کی پیش بندی کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

جب دنیا میں یہ وباء اپنی موت مر جائے گی تو اصل حقیقت سے پردہ اٹھے گا تاہم کچھ ناقدین قیاس کر رہے ہیں کہ یہ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ کا پیش خیمہ ہے، دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ چینی حکومت وسیع پیمانے پر سونا خرید کر رہی تھی، جس کا ایک مقصد مستقبل قریب میں چینی کرنسی کو عالمی سطح پرمتعارف کروانے کا منصوبہ بھی تھا، سب سے زیادہ متاثر جس کرنسی کو ہونا تھا، وہ امریکی ڈالر ہے، اس ضمن میں چین کو روس کی حمایت بھی حاصل تھی پھر اچانک کروناوائرس نمودار ہوگیا۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چینی ساختہ ٹیکنالوجی 5 جی بھی لانچ ہونے کو تھی، چین سیاسی اور معاشی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آجاتا، امریکی انتظاامیہ کے دباؤ میں آکر بعض مغربی ممالک کا اس ٹیکنالوجی کو لینے سے انکار دال میں کچھ کالا بتاتا ہے، سی پیک امریکہ بہادر کو پہلے ہی ہضم نہیں ہورہا۔
پورا عالم بخوبی جانتا ہے جب صدر صدام اور کرنل قذافی نے تیل کی تجارت ڈالر کی بجائے، یورو میں کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا تو کس طرح یہ نشان عبرت بنے، حالانکہ دونوں انکل سام کے ہی یہ چہیتے تھے، دوسری سربراہی مسلم کانفرنس جو خصوصی حالات میں بھٹو مرحوم نے لاہور منعقد کی، اس میں مشرق وسطٰی کے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا جو قصد کیا گیا ، قائدین کو اسکی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، ایک طرف امت مسلمہ کو قیادت سے محروم کیا گیا تو دوسری طرف منصوبہ سازوں کو سیاسی منظر سے غائب کروادیا گیا۔


 ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ امریکہ کب تلک اپنی عوام سے جھوٹ بولے گا کہ وہ دنیا کی پہلی میعشیت ہے، مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ چین اس میدان میں سبقت لے چکا ہے، اس جرثومہ پر قابو پا کر بھی اس نے ایک کامیاب قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے ،اس وباء کو چینی کورنا سے منسوب کر کے مسٹر ٹرمپ اپنا غصہ نکالنے کی ناکام کاوش کر رہے ہیں، امریکہ کی سرزمین سے دو ڈاکٹرایرکسن اور وارٹن نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکومت نے تمام ہسپتالوں کو ہدایات دی ہیں کہ نزلہ، فلو، کھانسی، بخار کے مریضوں کو بھی کووئڈ 19کا ہی شکار بتایا جائے، اس پیچھے کیا محرکات ہیں وہ بہتر جانتے ہیں، لیکن دکھائی دیتا ہے کہ وہ ان اعدادوشمار کو ذاتی اور انتخابی مفاد میں استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے، ہمارے ہاں بھی اس طرح کی شکایات سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی ہیں کہ دیگر بیماری سے مرنے والے بھی کرونا کی گنتی میں شمار کئے گئے ہیں۔


اس وباء نے ترقی یافتہ ممالک کی گوورننس کا پول کھول دیا ہے ، ، ماحولیاتی آلودگی کا راگ آلاپنے والے ورطہ حیرت میں گم ہیں، اپنی دھن میں مگن ہر سماج کے مردوذن نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا، کہ وہ گھروں میں یوں مقید ہو جائے گا، غیر فطری کاموں کی لطافت کے گناہ میں ڈوبے اس کو ہی ترقی اور دنیا سمجھ بیٹھے تھے،یہ اپنی چالیں چل رہے تھے وہ اللہ اپنی چال چل رہا تھا، اس نے یہ سوچنے پر اب انھیں مجبور کیا ہے کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے، ترقی پذیر ریاستوں نے تو اس موقع کو غنیمت جا ن کر ان قرضوں سے فی الوقت نجات حاصل کرنے کی کاوش کی ہے، عالمی ادارہ صحت ہو یا مالیاتی ادارے ان پر گرفت بڑی طاقتوں کی ہی ہے، وہ کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے،تاہم ان حالات میں عارضی ریلیف بھی غنیمت سے کم نہیں۔


 قیدتنہائی نے بہت سے پہلووں سے سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے، اس ناگہانی وباء سے قبل دوکان دار، ڈاکٹر، وکلاء، استاد،تاجر، سرمایہ دار، صنعتکار، اور ہر مافیا کے افراد اسکی سرزمین پر خدا بن بیٹھے تھے، لوٹ کھسوٹ ، ملاوٹ سے جلدی امارت چاہتے تھے، وہ اس جرثومہ کے سامنے کس قدر عاجز تھے، انسان رب کو بھول سکتا ہے، خالق، مخلوق کو نہیں، اسکی سنت بھی یہی ہے کہ جب زمین فساد سے بھر جاتی ہے تو کسی نہ کسی شکل میں اسکی وارنگ ضرور آیا کرتی ہے۔


مقام شکر ہے کہ ہماری سرزمین اس وباء سے کافی حد تک محفوظ رہی ،بوساطت کرونا بہت سا سبق زندگی کا حصہ بنے گا، یہ کہ سادہ اور فطری طریقہ سے گذارنے میں زیادہ راحت ہے،کھانے پینے ،سونے کے اوقات کار ہماری کارکردگی بڑھا سکتے ہیں، کاروباری نظام کو مغرب سے قبل بند کرکے ہم توانائی کی بچت اور،کھیل کے میدان آباد کرسکتے ہیں، روایت ہے کہ یونانی طبیب اپنی کاروباری سرگرمیوں کے سلسلہ میں مدینہ گئے ، مگر طویل مدت کوئی مریض نہ پاکر انھوں نے وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ وہ نبی آخرالزمان کی طب نبوی پر عمل پیرا ہیں لہذا بیماری سے محفوظ ہیں، کہا جاتا ہے، کہ چینی قوم لیموں پانی عرصہ قدیم سے استعمال کرتی آرہی ہے، یہ جسم سے فاضل مادے نکالنے میں معاون ثابت ہوتا ہے،ہوٹل، ریستورانٹ ،بند ہونے سے صاف شفاف کھانے گھر میں ملے،بچت بھی ہوئی، اس وباء کا خاص درس یہ بھی ہے کہ چین کی حکومت نے کھربوں ڈالر کی جو بچت کر رکھی تھی، عظیم شان اقدامات اس سے ممکن ہوئے اور وباء کو شکست دی جاسکی۔


قومی سطح پر یہ پیغام ملا کہ اپنے وسائل پر انحصار کرنا لازم ہے ، تعلیم کے نئے رحجانات اپنانے ہوں گے، سماجی شعبہ کی ترقی کے بغیر اس نوع کی وباء کا مقابلہ ممکن نہیں،آئی ٹی کے میدان میں افرادی قوت تیار کرنا ہوگی، سارے سماجی کلچر کو یکسربدلنا ہوگا، عبادت خانوں میں حفاظتی طریقے، گلیوں، بازاروں، شاپنگ مال، ہوائی اڈوں، عوامی مقامات پر حفظان صحت کے اصول اولین ترجیح ہوں گے۔
اس وباء نے صحت کی قومی پالیسی کو عیاں کرکے کم ازکم یہ درس دیا ہے، جدید نظام صحت اتنا ہی اہم ہے جتنا سامان حرب ضروری ہے، تاہم اس سے مفر نہیں کہ مختلف آراء کسی نئی سازش کا پتہ دیتی ہیں ، آنے والا وقت ہی بتائے گا، کون اس تجارتی جنگ کا ایندھن بنتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :