پناہ گاہیں

اتوار 13 ستمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کپتان کی خداد اد صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے،انکا ٹیلینٹ تو اس وقت نکھر کر سامنے آگیا تھا جب دھرنا” ایپی سوڈ“ میں انھوں نے سابقہ سیاسی جماعتوں کی ”کلاس“ لی تھی،کنٹینر پر کھڑے ہو کر دھمکی آمیز لہجے میں عبرت ناک انجام سے انکو آگاہ کیا تھا،ان کی شاہ خرچیوں کے تذکرے اور ساتھ انکی بدعنوانیوں کے قصے بھی عوام کو سنائے تھے، عوام ہی نہیں بلکہ مقتدر طبقہ بھی موصوف کو مسیحا سمجھ بیٹھا تھا،مسند اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لئے جہاں کئی جتن کئے وہاں سیاسی مخالفین کو راہ سے ہٹانے کی سبیل بھی نکالی،اس مشق نے ان انتخابات کو اپوزیشن کی زبان میں” سلیکشن“ بنا دیا اس میں حقیقت کتنی اور افسانہ کیا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سرکار کی حسن کاردگی سے اب یہ مفروضہ زد عام ہے،سرکار سچی ہے یا اپوزیشن جھوٹی اس کا فیصلہ تو کل کا مورخ ہی کرے گا، البتہ کپتان کا نیا بیانیہ ہرر روز سیاست میں اک نئی شگفتگی لاتا ہے، بھنگ کی سرکاری طور پر کاشت کی اجازت اس میں سے ایک ہے،کبھی کبھی وہ تاریخ سے یوں کھیلتے دکھائی دیتے ہیں کہ مورخ خود پریشان ہوجاتے ہیں،انکی کشمیر پالیسی سے لگتا ہے کہ اب وہ ہمارا جغرافیہ بھی بدلنے میں مصروف ہیں ،ان کا تازہ بیان تو ہمارے دل میں اتر گیا ہے،وفاقی دارلحکومت میں موصوف ایک ماڈل پناہ گاہ کے مکینوں سے مخاطب تھے،یوں گویاہوئے کہ قوم امیر نہیں غریب طبقہ کے طرز زندگی سے پہچانی جاتی ہے، اگر اسکو ہی قومی شناخت کا پیمانہ قرار دیا جائے تو اس اعتبار سے ہم تو ایک غریب قوم اور ریاست ٹھرے،کیونکہ ہماری غالب آبادی تو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے،بڑی آبادی کے پاس کم جبکہ کم افراد کے پاس زیادہ قومی وسائل ہیں، یہ اسی کا فیض ہے ،73 سال کے بعد بھی لاکھوں بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں، پینے کا صاف پانی ہر شہری کو میسر نہیں،نہ چھت ہی اس کے نصیب میں ہے،ایک طبقاتی نظام یہاں پھل پھول رہا ہے، امیر اور غریب کے لئے انصاف کے ترازو الگ الگ ہیں، یہاں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی اور بعد ازاں انکا قتل اب معمول بنتا جارہا ہے، بے بسی بیچارگی اس قوم کا مقدر ہے کیا ہم اس پہچان کو قابل فخر قرار دے سکتے ہیں؟
 ریاست کا کام غریب کی زندگی آسود بنانا نہیں،کیا قومی وسائل میں انکا کوئی حصہ نہیں،انکی نسلوں کو بھی اسی طرح حیاتی گزار نا ہوگی،یہ غلام ابن غلام تو پیدا نہیں ہوئے تھے قیام پاکستان کے وقت کیا ان کے لئے قربانیاں نہیں دی گئیں، ہر سرکار ان پر صرف اتنی مہربان ہوتی ہے کبھی انکو پناہ گاہ بنا دیتی ہے،کبھی لنگر خانے کھول دیتی ہے،کسی آفت یا ناگہانی صورت حال میں انکو ریلیف فراہم کر دیتی ہے،بم دھماکے میں مرنے پر نقد رقم دینے کا اعلان کرتی ہے متاثرہ خاندان کے بچے کو درجہ چہارم کی ملازمت دیتی ہے،انتخابات سر پر ہوں تو رہائشی کا لونی میں پلاٹ کی آفر کر دیتی ہے،پارکوں، ہسپتالوں میں پارکنگ فیس معاف کر دیتی ہے ہمارا استحصالی نظام ،غریب کے لئے پھانسی کا پھندا ہے جس کو وہ ہر صبح اپنے بچوں کے سامنے چومتا ہے،انکے سامنے اسکے ارمانوں کا خون ہوتا ہے، عارضی ریلیف کو بھی بڑی قومی خدمت مانا جاتا ہے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ ان اقدامات سے کوئی ریاست بھلا ماں کا درجہ پا سکتی ہے؟
 جب قانون کی نگاہ میں ہر شہری برابر ہے تو اسکے حقوق یکساں کیوں نہیں ہیں،کسی نے کہا تھا کہ غریب کے گھر پیدا ہونا آپکا مقدر ہو سکتا ہے مگر غریب مرنا آپکی نااہلیت ہے،یہ معقولہ اگر افراد کے لئے ہے تو اقوام کے لئے بھی اتنا ہی سبق آموز ہے،زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہماری پیدائش ترقی پذیر ملک کے طور پر ہوئی اور اب تلک یہی ہمارا مقدر ہے جس سے قومی قیادت کی نااہلیت کا گماں ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


ہماری کم ماآئیگی سمجھئے کہ اب تلک ہماری نگاہ سے ہمارے ہی عہد کے آزاد ہونے والے ممالک کے وزراء اعظم کا یہ بیان کہ قوم غریب طبقہ کے طرز زندگی سے پہچانی جاتی ہے نظر سے نہیں گزرا، ان کے لئے بڑا ہی آسان تھا کہ وہ بھی اس کو ہی قوم کی پہچان کہتے مگر انھوں نے اپنی صلاحتیں قوم سے غربت ختم کرنے پر صرف کی ہیں، یہ صرف تعلیم کے فروغ ہی سے ممکن ہے،مگر یہ ہماری کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی ہے،ہمارا تعلیمی بجٹ تو افریقی ممالک سے بھی کم ہے،ان حالات میں ہمارے پاس غریب کے طرز زندگی پر فخر کر نے سے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔


 کپتان کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھرانا تو قرین انصاف نہیں ہے ،لیکن انھوں نے بھی اپنے عہد اقتدار میں غربت کے خاتمہ کے لئے کوئی سمت ہی متعین نہیں کی اگر خدا لگتی بات کہی کی جائے تو ان کے دور حکومت میں غرباء کی مالی مشکلات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے،ہر چند انکا پہلا دور حکومت ہے اسکا بھی قریباً آدھا پارلیمانی عہد گزرا ہے مگر تاریخ میں ایسے بھی دور حکومت گزرے ہیں کہ حاکم وقت نے بہت ہی محدود وقت میں تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا،ہماری غربت تو اپنی ہی پیدا کردہ ہے،ورنہ قادر مطلق نے اس سرزمین کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے،ہماری ہی کوتاہی ہے کہ نہ ہی بھر پور استعفادہ حاصل کیا اور نہ ہی عوام کو غربت سے نہ نکا لا،وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہ بنا سکے۔

لوٹ مار کی رقم کو وآپس نہ لا سکے، ہمارے ہمسایہ ممالک بھی اگر بااختیار طبقہ کو باہر جزیرے ،املاک خرید نے کی اجازت دے دیتے ،بدعنوانی کی روک تھام کے لئے پھانسی کی سزا کا اطلاق نہ کرتے تو وہ بھی غریب کے طرز حیات کو قومی شناخت قرار دیتے۔
نجانے وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے ہاں امیر اور غریب کے قانون کا اطلاق یکساں ہو گا،خواتین اور بچے ،شاہراہیں گھر،مکان اور دوکانیں کب ڈاکوؤں سے محفوظ ہوں گے، مافیاز کا خاتمہ کب ہوگا، قومی اداروں میں سیاسی مداخلت کو کب گناہ تصور کیا جائے گا، عام شہری کو بر وقت انصاف کب نصیب ہوگا،جاگیرداری،وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام کب اپنی موت مرے گا،اس قوم کو جہالت سے کب نجات ملے گی،کب خود انحصاری کی منزل قریب آئے گی،وہ وقت کب آئے گا جب ہم ترقی یافتہ ملک کے طور پر سر اٹھا کر دنیا میں چلنے کے قابل ہوں گے؟ نجانے کس نسل کو آزادی کی فیوض برکات سمیٹنے کا موقع ملے گا۔


 کاش ہمارے پردھان منتری غریب کی حیاتی کو قوم کی پہچان قرار دینے کی بجائے،سماجی معاشی عدل وانصاف کے اطلاق، شرح خواندگی کی ترقی،مساوات،اخوت،سیاسی رواداری، فرقہ واریت کے خاتمہ کو اپنی سرکار کی پہچان بناتے تو کم از کم اس نعرہ تبدیلی کی کچھ تو جھلک دنیا دیکھ سکتی،ان کے وہ وعدے بھی وفاء ہوتے جو کنٹینر پر قوم سے کئے گئے تھے،اگر پہلی سرکاریں بھی غریب پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی جرم دار ہیں آج تو غریب کی حالت زار ہماری پہچان بن کر رہ گئی ہے توپھر وہ دوش کس کو دیں جنہوں نے سرکار کی رٹ کو چلینج کرتے ہوئے قومی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے یا انھیں مورد الزام ٹھرایا جا ئے جن میں غریب کے سر سے غربت کی چادر اتارنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔

ہماری پریشانی میں اضافے کا سبب یہ بھی ہے کہ مرغی، کٹے سے شروع ہونے والی معاشی پالیسی بھنگ کی کاشت تک آن پہنچی ہے ،کیا اس سے غربت کا خاتمہ ممکن ہوگا یا اور پناہ گاہیں درکار ہوں گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :