
پناہ گاہیں
اتوار 13 ستمبر 2020

خالد محمود فیصل
ریاست کا کام غریب کی زندگی آسود بنانا نہیں،کیا قومی وسائل میں انکا کوئی حصہ نہیں،انکی نسلوں کو بھی اسی طرح حیاتی گزار نا ہوگی،یہ غلام ابن غلام تو پیدا نہیں ہوئے تھے قیام پاکستان کے وقت کیا ان کے لئے قربانیاں نہیں دی گئیں، ہر سرکار ان پر صرف اتنی مہربان ہوتی ہے کبھی انکو پناہ گاہ بنا دیتی ہے،کبھی لنگر خانے کھول دیتی ہے،کسی آفت یا ناگہانی صورت حال میں انکو ریلیف فراہم کر دیتی ہے،بم دھماکے میں مرنے پر نقد رقم دینے کا اعلان کرتی ہے متاثرہ خاندان کے بچے کو درجہ چہارم کی ملازمت دیتی ہے،انتخابات سر پر ہوں تو رہائشی کا لونی میں پلاٹ کی آفر کر دیتی ہے،پارکوں، ہسپتالوں میں پارکنگ فیس معاف کر دیتی ہے ہمارا استحصالی نظام ،غریب کے لئے پھانسی کا پھندا ہے جس کو وہ ہر صبح اپنے بچوں کے سامنے چومتا ہے،انکے سامنے اسکے ارمانوں کا خون ہوتا ہے، عارضی ریلیف کو بھی بڑی قومی خدمت مانا جاتا ہے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ ان اقدامات سے کوئی ریاست بھلا ماں کا درجہ پا سکتی ہے؟
جب قانون کی نگاہ میں ہر شہری برابر ہے تو اسکے حقوق یکساں کیوں نہیں ہیں،کسی نے کہا تھا کہ غریب کے گھر پیدا ہونا آپکا مقدر ہو سکتا ہے مگر غریب مرنا آپکی نااہلیت ہے،یہ معقولہ اگر افراد کے لئے ہے تو اقوام کے لئے بھی اتنا ہی سبق آموز ہے،زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہماری پیدائش ترقی پذیر ملک کے طور پر ہوئی اور اب تلک یہی ہمارا مقدر ہے جس سے قومی قیادت کی نااہلیت کا گماں ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
ہماری کم ماآئیگی سمجھئے کہ اب تلک ہماری نگاہ سے ہمارے ہی عہد کے آزاد ہونے والے ممالک کے وزراء اعظم کا یہ بیان کہ قوم غریب طبقہ کے طرز زندگی سے پہچانی جاتی ہے نظر سے نہیں گزرا، ان کے لئے بڑا ہی آسان تھا کہ وہ بھی اس کو ہی قوم کی پہچان کہتے مگر انھوں نے اپنی صلاحتیں قوم سے غربت ختم کرنے پر صرف کی ہیں، یہ صرف تعلیم کے فروغ ہی سے ممکن ہے،مگر یہ ہماری کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی ہے،ہمارا تعلیمی بجٹ تو افریقی ممالک سے بھی کم ہے،ان حالات میں ہمارے پاس غریب کے طرز زندگی پر فخر کر نے سے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
کپتان کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھرانا تو قرین انصاف نہیں ہے ،لیکن انھوں نے بھی اپنے عہد اقتدار میں غربت کے خاتمہ کے لئے کوئی سمت ہی متعین نہیں کی اگر خدا لگتی بات کہی کی جائے تو ان کے دور حکومت میں غرباء کی مالی مشکلات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے،ہر چند انکا پہلا دور حکومت ہے اسکا بھی قریباً آدھا پارلیمانی عہد گزرا ہے مگر تاریخ میں ایسے بھی دور حکومت گزرے ہیں کہ حاکم وقت نے بہت ہی محدود وقت میں تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا،ہماری غربت تو اپنی ہی پیدا کردہ ہے،ورنہ قادر مطلق نے اس سرزمین کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے،ہماری ہی کوتاہی ہے کہ نہ ہی بھر پور استعفادہ حاصل کیا اور نہ ہی عوام کو غربت سے نہ نکا لا،وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہ بنا سکے۔لوٹ مار کی رقم کو وآپس نہ لا سکے، ہمارے ہمسایہ ممالک بھی اگر بااختیار طبقہ کو باہر جزیرے ،املاک خرید نے کی اجازت دے دیتے ،بدعنوانی کی روک تھام کے لئے پھانسی کی سزا کا اطلاق نہ کرتے تو وہ بھی غریب کے طرز حیات کو قومی شناخت قرار دیتے۔
نجانے وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے ہاں امیر اور غریب کے قانون کا اطلاق یکساں ہو گا،خواتین اور بچے ،شاہراہیں گھر،مکان اور دوکانیں کب ڈاکوؤں سے محفوظ ہوں گے، مافیاز کا خاتمہ کب ہوگا، قومی اداروں میں سیاسی مداخلت کو کب گناہ تصور کیا جائے گا، عام شہری کو بر وقت انصاف کب نصیب ہوگا،جاگیرداری،وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام کب اپنی موت مرے گا،اس قوم کو جہالت سے کب نجات ملے گی،کب خود انحصاری کی منزل قریب آئے گی،وہ وقت کب آئے گا جب ہم ترقی یافتہ ملک کے طور پر سر اٹھا کر دنیا میں چلنے کے قابل ہوں گے؟ نجانے کس نسل کو آزادی کی فیوض برکات سمیٹنے کا موقع ملے گا۔
کاش ہمارے پردھان منتری غریب کی حیاتی کو قوم کی پہچان قرار دینے کی بجائے،سماجی معاشی عدل وانصاف کے اطلاق، شرح خواندگی کی ترقی،مساوات،اخوت،سیاسی رواداری، فرقہ واریت کے خاتمہ کو اپنی سرکار کی پہچان بناتے تو کم از کم اس نعرہ تبدیلی کی کچھ تو جھلک دنیا دیکھ سکتی،ان کے وہ وعدے بھی وفاء ہوتے جو کنٹینر پر قوم سے کئے گئے تھے،اگر پہلی سرکاریں بھی غریب پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی جرم دار ہیں آج تو غریب کی حالت زار ہماری پہچان بن کر رہ گئی ہے توپھر وہ دوش کس کو دیں جنہوں نے سرکار کی رٹ کو چلینج کرتے ہوئے قومی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے یا انھیں مورد الزام ٹھرایا جا ئے جن میں غریب کے سر سے غربت کی چادر اتارنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ ہماری پریشانی میں اضافے کا سبب یہ بھی ہے کہ مرغی، کٹے سے شروع ہونے والی معاشی پالیسی بھنگ کی کاشت تک آن پہنچی ہے ،کیا اس سے غربت کا خاتمہ ممکن ہوگا یا اور پناہ گاہیں درکار ہوں گی؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.