ووٹ کی حرمت

اتوار 27 ستمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اس ماں کے دکھ اور کرب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جس کی ایک ہی نرینہ اولاد ہو،وہی اس کی خوشی کا محور ہو،اس سے ہی زندگی کی یادیں وابستہ ہوں، عہد شباب میں بیوگی کا غم اٹھانے والی اس ہستی کے پاس ایک ہی سہارا ہوں، وہ بھی پیرانہ سالی میں داغ مفارقت دے جائے،اگر موت فطری ہو تو صبر بھی آجائے لیکن اگر یہ دکھ اس سامراجی نظام کا دیا ہو، زندگی سرمایہ دار کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے ،سرکار بھی ظالموں پے دست شفقت رکھتی ہوں تو پھر کیسے قرار آئے،اس بدقسمت ماں کا تعلق روشنیوں کے شہر کراچی سے ہے،جو سانحہ کے روز اپنے بیٹے کے لئے اس کی پسند کے دال چاول بنا رہی تھی،اس کی آنکھیں در پر تھیں کہ کب اس کا لاڈلہ دستک دے امی کہہ کر پکارے اور پوچھے کہ آج کیا بنایا ہے،مگر یہ لمحہ اس سانحہ کے بعد نہیں آیا،اس دکھیا ماں نے اسکے رخصت ہونے کے بعد پھر کبھی کھانا گھر نہیں بنایا، اس کے بیٹے کی قسمت ہی ایسی کہ دوسال میں اللہ تعالیٰ نے اس کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا،جب عہد شباب تھا،تو ماں کی خدمت کا بوجھ آن پڑا،گھر کی ذمہ داری اس لئے اٹھانا پڑی کہ اب ما ں فیکٹری کام نہیں کر سکتی تھی، بیماری نے اس سے یہ طاقت چھین لی تھی،اس نے اپنے خوابوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے،ماں کی جگہ پر ملازمت اختیار کر لی تھی مگر ساتھ سلسلہ تعلیم بھی جاری رکھا،اس 18 سالہ نوجوان کو کیا علم تھا کہ وہ فیکٹری میں لگنے والی آگ کا ایدھن بن جائے گا، اس کے سارے خواب بکھر جائیں گے، طاقت اور دولت کے نشے میں مست لوگ اپنی تجوریوں کو بھرنے کے لئے انسانوں کو زندہ جلانے سے بھی گریز نہیں کریں گے،ٹی وی وساطت سے ملنے والی خبر نے اس کی ماں کے ہوش اڑا دئے تھے،وہ دہائی دیتی جب بلدیہ فیکٹری پہنچی تو بڑا بھیانک منظر تھا،آہ بکاہ، چیخ و پکار نے سب کے دل ہلا دئے تھے مگروہ انسان بھی وہاں موجود تھے جن کے سینے میں دل نہیں تھا، جنہوں نے اس کارخانہ کو آگ لگانے کا حکم دیا تھا،یہ انکی پہلی واردات نہیں تھی ہر کمزور شخص ان کے نشانے پر تھا،اہل کراچی کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا جب ایک مہاجر خاتون اپنے بیٹے کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی، اس امید کے ساتھ اس نے شہر کے ہر ہسپتال کی خاک اس امید پر چھانی کہ اس کا بیٹا کاش زندہ ہو، اس ممتا نے طویل سفر کیا،وہ کیا ہولناک منظر تھا جب وہ اپنی متاع حیات کو لاش کی صورت سامنے دیکھ رہی تھی، بے بسی کے عالم میں ظالم سماج اور قومی اداروں سے سوال کر رہی تھی کہ کوئی بتائے تو سہی کہ اس کے اکلوتے بیٹے کا قصور کیا تھا جس کو بیدردی کے ساتھ موت کی نیند سلا دیا گیا ہے، جس نے آخری بات اپنی ماں سے بذریعہ پیغام یہ کی تھی کہ امی آج وہ تنخواہ نہیں دے رہے کل کا بتا رہے ہیں ،صابر ماں نے کہا کوئی بات نہیں، اس کو ڈر تھا کہ وہ کسی سے جھگڑا ہی نہ کر بیٹھے، وہ قیامت خیز منظر تھا جب اس کے محلے سے سترہ جنازے بیک وقت اٹھے تھے،غربت کے مارے خاندانوں کے پیاروں کا صرف اتنا جرم تھا کہ وپیٹ کے دوزخ کی آگ بجھانے کے لئے فیکٹری میں محنت مزدوری کر رہے تھے انھیں تو یہ خبر بھی نہ تھی کون ان کی زندگیوں سے کھیلنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے،بھتہ کس کو لینا ہے انکاری کون ہے، اسکا کس کو فائدہ یا نقصان ہونا ہے ۔

(جاری ہے)


جس روز اس شہر میں 260 افرادکو زندہ جلا دیاگیاکسی آنکھ میں ندامت کے آنسو نہ تھے وہی روائتی بیانات،مذمتی قرار دایں تھیں،یہ انکی پہلی واردات نہ تھی ،پرچی تھما کر رقم وصول کرنے کا کلچر قانون کا درجہ پا چکا تھا،اس بھتہ سے کئی لوگوں کے گھر کے چولہے جلتے تھے، مگر اپنے مفاد کے لئے اس سانحہ سے وہ کئی گھروں کے چولہے بجھا چکے تھے کچھ اس رقم پر عیاشی کی زندگی بیرون ملک بسر کر رہے تھے،دولت کے بل بوتے پر فیکٹری مالکان بیرون ملک سدھار چکے تھے،غریب مزدور آہوں اور سسکیوں میں دفن کر دئے گئے تھے،کوئی انکا پرساں حال نہ تھا،معمول کی تفتیش کا عمل جاری تھا،سوشل میڈیا پر اس سانحہ کے خلاف بھر پور رد عمل تھا،مگر اس قماش کے لوگ ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے کے فریب میں مبتلا تھے، ان کے حو صلے اس لئے بھی بلند تھے کہ شہر اقتدار ان کا اتحادی تھا،ہر سرکاری دفتر میں انکا طوطی بولتا تھا،جس سے بھی بغاوت کی بو آتی ، بوری بند لاش اس کا مقدر ہوتی ۔


ایسے ماحول میں اپنے بیٹے کا غم لئے ایک خاتون آگے بڑھتی ہے،وہ دوسروں کے دکھ کو اپنا درد بنا لیتی ہے،وکلاء سے ملاقات کرتی ہے،ٹریڈ یونین سے انصاف کے حصول میں تعاون چاہتی ہے، وہ چاہتی تو اپنے بیٹے کی موت کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہو جاتی، باقی زندگی تنہائی میں گذار کر اللہ کے حضور مقدمہ لے کر پیش ہو جاتی لیکن اس نے ظالم کے خلاف علم بلند کر کے ان طاقتور سیاسی قوتوں اور اداروں کے منہ پر طمانچہ مارا جو ہزاروں میل دور بیٹھے ایک مجرم سے خوف کھاتے تھے ، موصوفہ نے مقامی عدالتوں میں بھتہ مافیا کے خلاف مقدمات درج کروائے، پنشن،سوشل سیکورٹی، ڈیتھ گرانٹ کے لئے کاوش کی،بیرون ملک کا رخت سفر باندھا،نیپال میں انسانی حقوق کی کانفرنس میں شرکت کی،پچاس سے زائد ممالک کی تنظیموں نے ان کے موقف کی حمایت کی،صحافی برادری، اراکین پارلیمنٹ نے بھی اس بہادر خاتون سعیدہ بی بی کو سپورٹ کیا۔


سرکار کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کا نتیجہ عدالتی فیصلہ کی صورت میں برآمد ہوا ہے،صرف دوافراد کو کئی بار سزائے موت،کچھ کو عمر قید اور چارکی بریت سے اندازہ ہوتا ہے ان صاحب ثروت بااثر افراد نے اپنے اثرورسوخ سے دوران تفتیش اپنی رہائی کا ساماں پیدا کر لیا تھا،موصوفہ نے ایک بیان میں کہا ہے وہ بھاری بھر رقم جس کا تذکرہ جے آئی ٹی میں تھا، عدالتی فیصلہ میں دکھائی نہیں دیا ہے،سعیدہ بی بی نے اس جدو جہد کے لئے نہ صرف گھر بار چھوڑا بلکہ بہت دباؤ بھی برداشت کیا،وہ لوگ جو عدالتی فیصلہ میں کسی وجہ سے بچ گئے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جن کے ایک اشارہ پر پورا شہر بند ہو جایا کرتا تھا آج وہ بات کرنے کو ترستے ہیں،صنف نازک کی ایک کمزور آواز متاثرین کے حق میں توانا ثابت ہوئی ہے، عورت کی طرح ظلم کے خلاف اگر مرد صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے تو بلدیہ فیکٹری میں انسانوں کو زندہ جلانے کی کوئی جرات نہ کرتا، لسانیت کے حقوق کے نام پر جس طرح ووٹ کی حرمت کو پامال کیا گیا ہے،اسکی کوئی مثال پوری ریاست میں نہیں ملتی،طاقتور وہ ہے جو مظلومین کے حمایت میں آواز اٹھاتا ہے ظلم روا رکھنے اور بھتہ لینے سے کوئی طاقت ور نہیں ہوجاتا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :