کتا نکالو
اتوار 18 اکتوبر 2015
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کراچی آپریشن کو شروع ہوئے تیرہ ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران ذمہ دار ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اب تک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف صر ف کراچی میں جوآپریشنز کئے گئے ان میں رینجرز نے گیارہ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے تقریباََ چھ ہزار کو تحقیقات کے بعد بے گناہ ہونے یا معمولی الزامات کی بنا پر رہا کیاجا چکا ہیاور باقی پولیس کے حوالے کر دئے گئے ہیں ۔
(جاری ہے)
رینجرز آپریشن کے بعد یہ تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ کراچی کے حالات میں بہتری نہیں آئی ۔گوشہر قائد کی رونقیں پوری طرح بحال نہیں ہوئیں لیکن کراچی کے باسی اب گھر سے نکلنے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ انہیں باہر جانا چاہیے یا نہیں ۔معاشی سرگرمیوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد کراچی کی سڑکوں پر نئی موٹر سائیکلیں بھی نظر آتی ہیں۔ خوف اب کراچی کے باسیوں کے ذہن سے چھٹ چکا ہے ۔
ایم کیو ایم کا واویلا کسی حد تک بجا بھی ہو سکتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن کا پس جانا کوئی عجیب بات نہیں اور کسی حد تک اس کا ذمہ دار ” نا بالغ میڈیا “ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص شک کی بنا پر گرفتار ہوتا ہے تو اس سے پہلے کہ اس پر کوئی الزام ثابت ہو ٹی وی سکرینوں پر چھائی لالی اسے عوام کے کچے ذہنوں میں خونخوارثابت کر چکی ہوتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ رینجرز غلط خطوط پر کام کررہی ہے کیونکہ بہتری کی گنجائش لیکن ہر جگہ موجود ہوتی ہے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ کراچی میں رینجرز اور کتنا عرصہ رہے گی ؟بنیادی طور پر شہر یا صوبے میں قیام امن پولیس کا کام ہے نہ کہ رینجرز کا۔ آج یا سال دو سال بعد رینجرزکراچی آپریشن کے مقاصد پورے کر کے واپس چلی جاتی ہے تو اس امن کو برقرار کیسے رکھاجائے گا؟ جی نہیں پولیس اس قابل نہیں ہے ،ہوتی تو حالات اس نہج پر کیوں آتے ؟پولیس اس قابل ہو بھی نہیں سکتی کہ سیاسی مداخلت نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔سب جانتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں وہ صرف اس لئے ناکام ہوئیں کہ پولیس کو قانون اور ضابطے کے مطابق کام کی آزادی نہیں دی گئی بلکہ قدم قدم پر انہیں لوگوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جن کا کام اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری لانا تھا۔اب بھی صورتحال یہ ہے کہ دھڑا دھڑ آپریشن ہو رہے ہیں اور بندے پکڑے جارہے ہیں ،کچھ چھوڑے جا رہے ہیں اور بعض کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں ۔ لیکن پولیس کے کنویں سے سیاسی مداخلت کا کتا کوئی نہیں نکال رہا۔ اس لئے صاحبان
اختیار کو چاہیے کہ وہ کنویں سے پانی نکالنے کی بجائے پہلے کتا نکالیں۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ جب تک پولیس کو جدید خطوط پر تربیت دے کر قانون کے مطابق کام کرنے کی آزادی نہیں دی جائے گی کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا ممکن نہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.