حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے شاہی پہلوان کو پچھاڑ دیا

پیر 14 دسمبر 2020

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

اولیاء اللہ حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے ایک مرتبہ لاہور آئے تو سب سے پہلے آپؒ نے وہاں مدفون بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی اور حیات اولیاء اللہ سے ملاقاتیں کیں۔ان دنوں لاہور میں پہلوانوں کا بہت چرچا تھا ۔ بیجا پور سے ایک مشہور شاہی پہلوان بھی لاہور آیا ہوا تھا۔آپؒنے سوچا کہ لاہور میں اولیاء اللہ اور مزارات مقدسہ کی زیارت تو ہوگئی کیوں نہ شاہی پہلوان سے بھی مل لیا جائے ۔

آپؒ شاہی پہلوان کو ملنے اس کے اکھاڑے میں چلے گئے۔ اکھاڑے میں تگڑا شاہی پہلوان لنگوٹ کسے پٹھوں(شاگردوں) کو داو پیچ سکھا رہا تھا۔اسی دوران آپؒ نے دیکھا کہ اگر کوئی پٹھہ(شاگرد) غلط داو لگادیتا یا اس ہدایت پر عمل نہ کرتا تو شاہی پہلوان غصے میں آ جاتا اوراپنے پٹھوں کو گالیاں دینے لگتا۔

(جاری ہے)

حضرت سیدنوشہ گنج بخش ؒ کو اس کی متکبرانہ استادی پربہت تعجب ہوا کہ ایک طاقتور پہلوان کس طرح اپنے سے کمزور پہلوان خاص کر شاگردوں کو یوں گالیاں دے سکتا ہے۔

ابھی آپؒ اکھاڑے کے پاس کھڑے شاہی پہلوان کی استادی کا جائزہ لے رہے تھے کہ شاہی پہلوان کی نظر آپؒ پر پڑی۔اس نے آپؒ کے کسرتی اور مضبوط جسم اور قدکاٹھ کو دیکھا اور پھر آپؒ کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے بدتمیزی سے پوچھا''تم پہلوان ہو ؟''آپؒ نے فرمایا'' ہاں جی میں بھی پہلوان ہوں''شاہی پہلوان نے پھر پوچھا'' لڑو گے؟ لنگوٹ کس لو اور ذرا میرے پٹھے کے ساتھ ایک پکڑ(داو،) تو دکھاو۔

''آپؒ بولے'' پہلوان جی، میں آپ کے پٹھے سے کشتی نہیں لڑوں گا۔''شاہی پہلوان نے طنزیہ کہا'' کیوں،کیا بات ہے؟۔ کیا یہ تیری دف کا ہے؟ اگر تیری دف کا بھی ہے تو کیا ہوا،ذرا میں بھی تودیکھوں لاہوریوں کی دف میں کتنی جان ہے۔''حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے جواب دیا'' پہلوان جی، میرا کسی دف سے تعلق نہیں ہے۔ میں تو پہلوان جی آپ سے کشتی کرنا چاہتا ہوں۔

'' آپؒ نے شاہی پہلوان کو اکھاڑے میں کشتی کی دعوت دے دی،یہ سن کر اکھاڑے میں موجود دیگر پہلوان بھڑک اٹھے اوراپنی رانوں پر ہاتھ مار کر آپؒ کی جانب لپکتے ہوئے بولے'' پہلے ہم سے دست پنجہ لڑا پھر ہمارے استاد کو چیلنج کرنا۔''آپؒ نے کوئی جواب نہ دیا۔ شاہی پہلوان جو بدستور آپؒ کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے پٹھوں سے کہا'' اوئے منڈیو، صبر کرو'' شاہی پہلوان نے آپؒ کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا'' آ جا، نوجوان میں تریی حسرت پوری کرتا ہوں۔

چل جلدی سے لنگوٹ کس لے۔''حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ مسکرائے اور پھر بڑے تحمل سے کہا'' پہلوان جی، کشتی بھی لڑ لیتے ہیں ذرا پہلے دست پنجہ تو ہو جائے ''یہ کہہ کر آپؒ نے اپناہاتھ آگے بڑھایا۔ شاہی پہلوان بڑے تکبراور غرار سے ہنستا ہوا آگے بڑھااوراپنا بھاری ، چوڑا ہاتھ آگے بڑھایا۔اب دونوں کے درمیان دست پنجہ کا مقابلہ شروع ہوگیا۔اکھاڑے کے پہلوان اور لوگ مقابلہ دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے۔

ہر کسی کو یقین تھا کہ شاہی پہلوان نوجوان کو آسانی سے ہرا دے گا۔ مقابلہ شروع ہوگیا، حضرت سید توشہ گنج بخشؒ نے شاہی پہلوان کے ہاتھ پکڑکر رکھنے تھے اورشاہی پہلوان کو اپنی طاقت سے ہاتھ چھڑانے تھے۔ آپؒ نے جونہی شاہی پہلوان کے ہاتھ پکڑے اسے یوںمحسوس ہوا جیسے اس کے پورے جسم سے جان نکل گئی ہے۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا اور آپؒ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگا لیکن بری طرح ناکام رہا۔

قریب تھا کہ شاہی پہلوان کی انگلیوں سے خون جاری ہو جاتا۔وہ زور زور سے چلایا''مجھے معاف کر دو نوجوان، میرا ہاتھ چھوڑ دو، ورنہ میری جان نکل جائے گی۔''مقابلہ دیکھنے والے پہلوان اورلوگ حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ ایک تگڑے،ماہر شاہی پہلوان کو کس طرح ایک نئے پہلوان نے ہرا دیا۔آپؒ نے شاہی پہلوان کی التجا پراس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا'' پہلوان جی،اللہ ربّ العزت نے آپ کو اتنی طاقت عطا کی اورعزت بخشتے ہوئے بادشاہ کے دربار تک پہنچا دیا مگر آپ نے اپنی طاقت اور عزت کوکو تکبر اور ظلم کا وسیلہ بنا لیا ہے۔،اتنا زیادہ غصہ نہ کیا کریں اور یاد رکھیں اصل پہلوان تو وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پاتا ہے۔''آپؒ کی بات سن کر شاہی پہلوان شرمندہ ہوگیااور اپنی اصلاح کی ٹھان لی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :