حضرت شہباز قلندرؒ کے جلال سے ظالم راجہ کا قلعہ الٹ گیا

منگل 6 اپریل 2021

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

مشہور صوفی بزرگ حضرت عثمان مروندی لال شہباز قلندرؒ کی سیوستان(سیہون شریف) میں ایک ظالم اور عیاش راجہ جیسر جی المعروف چوپٹ راجہ کی حکمرانی تھی۔چوپٹ راجہ کے اپنی رعایا پرمظالم اتنے بڑھ گئے کہ مقولہ مشہور ہوگیا''اندھیر نگری،چوپٹ راجہ''۔انہی دنوں ایک درویش'' سکندر بودلہ'' سیوستان کی پہاڑیوں میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے ۔

ایک رات انھوں نے غیب سے آواز سنی کہ ایک مرد قلندر آرہا ہے جووہاںظلمت کے اندھیرے مٹا دے گا بس پھر کیا تھا درویش بودلہ نے اونچی آواز میں نعرے لگانے شروع کردیا''ظالم بادشاہ سے نجات دلانے ،میرا مرشد آرہا ہے''۔جب یہ نعرے ظالم راجہ تک پہنچے تو اس نے درویش کو قید کروادیا لیکن یہ قید بھی درویش کے نعروں کو بند نہ کرسکی۔

(جاری ہے)

ظالم بادشاہ نے درویش پر بے انتہا مظالم ڈھائے مگر درویش کے منہ سے ایک ہی جملہ نکلتا''میرا مرشد آرہا ہے''۔

ادھر حضرت لال شہباز قلندرؒوادی مہران سندھ کے مختلف علاقوں میں روحانی فیض بانٹنے کے بعدجب سیوستان تشریف لائے تو وہاں شراب و شباب کی محافل عروج پر تھیں۔آپؒ کے وہاں آنے پر یہ محافل خود بخود بند ہونا شروع ہوگئیں،کچھ دنوں بعد وہاں کے عیاش لوگوں نے چوپٹ راجہ کو شکایت کی کہ ایک درویش کے آنے سے ان کا ناجائزکاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔چوپٹ راجہ خود عیاش تھا اس لئے اس نے کوتوال کو حکم دیا کہ درویش اور اس کے مریدوں کواس کی ریاست سے باہر نکال دیا جائے۔

حکم ملتے ہی سپاہی روانہ ہوگئے،سپاہی جب آپؒ کے خیمے میں داخل ہونے لگے تو ان کے جسم ایک جگہ ساکت ہوگئے۔بھرپور طاقت کے باوجود سپاہی آگے نہ بڑھ سکے، جب انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو ان کی طاقت بحال ہوگئی۔طاقت بحال ہوتے ہی سپاہیوں نے دوبارہ خیمے کی طرف بڑھناچاہا تو پھر ساکت ہوگئے ،آخرسپاہی واپس لوٹ گئے۔چوپٹ راجہ سارا واقعہ سن کر آگ بگولہ ہوگیا اور نجومیوں سے وجہ پوچھی ،انھوں نے زائچہ بنا نے کے بعد راجہ کو بتایاکہ یہ وہی مرشد ہے جس کا ذکر قیدخانے میں درویش کرتے ہوئے کہتا رہتا ہے کہ میرا مرشد آرہا ہے ۔

نجومیوں اور وزیروں کے مشورے پر چوپٹ راجہ نے سونے کی اشرفیوں اورہیرے جواہرات کے بڑے بڑے تھال حضرت لال شہباز قلندرؒکی خدمت بھجوائے تاکہ آپؒ کسی اور جگہ تشریف لے جائیں۔آپؒ نے تمام اشرفیاں،ہیرے جواہرات کو آگ میں پھینک دیا۔کچھ ہی لمحوں میں سارا سونا ،ہیرے جواہرات خاک کا ڈھیر بن گئے۔راجہ چوپٹ کاوزیر اس منظر کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور خوف زدہ ہوکر واپس چلا گیا۔


حضرت شہباز قلندرؒ کو روحانی طور پر علم تھا کہ ایک درویش چوپٹ راجہ کی قید میں اذیتیں جھیل رہا ہے ۔ایک روزآپؒنے قلعہ کی جانب رخ کرکے پکارا''بودلہ اب آجاو میرے پاس''۔قید خانے میں درویش سکندر بودلہ جو ہر وقت پکارتے رہتے تھے میرا مرشد آرہا ہے،انھوں نے اپنے مرشد کی روحانی آواز محسوس کرلی،وہ خوشی سے پکارنے لگے''میرا مرشد آگیا''۔درویش بودلہ کی بیڑیاں خود بخود ٹوٹ گئیں اور قید خانے کا دروازہ کھل گیا۔

درویش بودلہ قید خانے سے نکلے اوراپنے مرشد حضرت شہباز قلندرؒ کی خدمت میںپیش ہوگئے۔جب چوپٹ راجہ کوتمام واقعات کا علم ہوا تو اس ان کرامات کو شعبدہ بازی قرار دے دیا۔پھراس نے بڑے بڑے جادوگروں اور نجومیوں کو طلب کیااورانھیں حضرت لال شہباز قلندرؒ کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔جادوگروں اورنجومیوں نے راجہ کو بتایاکہ حضرت شہباز قلندرؒ کی روحانی طاقت کے سامنے ہمارے کالے جادوکا وار نہیں چل سکتا،ان کی روحانی طاقت کو زائل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی طرح ان کے شکم میں حرام غذا داخل کی جائے۔

جادوگروں کی بتائی ہوئی ترکیب کے مطابق راجہ نے حرام جانور کے گوشت سے طرح طرح کے پکوان تیار کروا کر آپؒ کی خدمت میں بھجوائے۔کھانے اس طرح تیار کئے گئے تھے کہ پتہ نہ چل سکے کہ حرام جانور کے گوشت سے بنے ہیں۔ حضرت شہباز قلندرؒحرام کھانا دیکھتے ہی جلال میں آگئے ۔آپؒ نے یہ کہہ کر حرام کھانا الٹ دیا کہ''اس کافرکی تقدیر میں ہلاکت اور بربادی لکھی ہے،اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا''۔

جیسے ہی آپؒ نے حرام کھانا الٹا،اس کے ساتھ ہی شدید زلزلہ آیا اور چوپٹ راجہ کا مضبوط قلعہ بھی الٹ گیا۔یوں سیہون شریف کے عوام کو ایک ظالم اور عیاش راجہ سے نجات مل گئی۔
چوپٹ راجہ کے الٹے ہوئے قلعہ کے آثار اب بھی سیہون شریف میں نشان عبرت کے طور پر موجود ہیں جسے مقامی لوگ ''الٹی بستی'' کے نام سے پکارتے ہیں۔چوپٹ راجہ کا قلعہ ایک مضبوط تاریخی قلعہ تھا جس کا ذکر برطانوی فوج کے لیفٹیننٹ ولیم ایڈورڈز نے اپنی کتاب'' Sketches in Scinde'' میں بھی کیا ہے ۔

اس قلعہ کا ذکر معروف مو رخ،بھرمل مہرچند ایڈوانی نے اپنی کتاب'' سندھی ہندن جی تاریخ'' اورسندھ کے نامور محقق اشتیاق انصاری نے اپنی کتاب ''سندھ جا کوٹ آئیں قلعہ'' میں بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔ سیہون کا یہ تاریخی قلعہ قبل از مسیح سے موجود ہے۔قلعہ کے بارے میں ایک اور روایت یہ بھی مشہور ہے کہ یہ قلعہ سکندرِ اعظم نے تعمیر کروایاتھاجس کی وجہ سے اسے سکندر کا قلعہ بھی کہا جاتارہا ہے، جبکہ بہت سے محققّین کے مطابق جب سکندر اعظم سندھ میں داخل ہوا تو یہ قلعہ پہلے سے موجود تھا۔بہرحال یہ ایک مضبوط ترین قلعہ تصور کیا جاتا تھاجوایک قلندر کے جلال سے الٹ گیا او راب مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :