موت کی ٹرین میں زندگی کا آخری سفر

بدھ 9 جون 2021

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے نزدیک سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس کے تصادم کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں نے ہر آنکھ کواشکبار کردیا ہے۔صبح چار بجے جب دونوں ٹرینوں کا تصادم ہوا تو دن نکلنے پر لاشوں کے ٹکڑے دور دور تک بکھرے ہوئے تھے،یہ خوفناک منظر دیکھنے والے کئی افراد موقع پر بے ہوش بھی ہوگئے،یہ ایسا ہولناک حادثہ تھا کہ ریسکیو ٹیمیں بھی یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ گئیں۔

ٹرین حادثے میں ہلاک ہونے والے وہ بدنصیب تھے جو کورونا وائرس سے تو بچ گئے لیکن انھیں ایسی بھیانک موت کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کی تدفین کے لئے جسم کے حصے بھی پورے نہیں تھے،یہ بھی کسی کومعلوم نہ تھا کہ جسم کے جن حصوں کو اکٹھاکر ایک میت تیار کی جارہی ہے وہ ایک ہی شخص کی ہے بھی کہ نہیں،اللہ اللہ،یہ کیسا خونی منظر تھا؟ یہ کیسی قیامت تھی؟خون میں لت پت بچ جانے والے اپنے پیاروں کے ٹکڑے ڈھونڈھ رہے تھے،خون سے تر زمین پر کوئی نوحہ کناں تھا تو کوئی گم سم اس سوچ میں مبتلا تھا کہ قیامت سے پہلے قیامت کیسے آگئی؟ ایک ہی خاندان کے پانچ بدنصیب افراد کو کیا معلوم تھا کہ موت کی ٹرین میں وہ اپنی زندگی کاآخری سفر کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

موت کی ٹرین میں سفر کرنے والے باراتیوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی منزل کیا ہوگی کسی باراتی کو موت ملی تو کسی کوغم جدائی۔ٹرین میں سفر کرنے والے باراتی اپنی منزل تک تو نہ پہنچ سکے بس نشانی کے طور پر شادی کے کپڑے،مہندی اور چوڑیاں چھوڑ گئے کہ کوئی تو ہوگا جو یہ بتا سکے کہ وہ زندگی کے نئے سفر پر نکلے تھے یا آخری سفر پر؟کوئی تو یہ بتا سکے کہ اس بدنصیب دولہا،دلہن نے کون سا گناہ کیا تھا جس کی انھیں یہ سزا ملی تھی۔

ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا جن کا باپ روزگار کے لئے اس ٹرین میں سفر کررہا تھا،اس بوڑھی ماں کا کیا قصور تھا جس کا کلوتا بیٹا اس سے ملنے جارہا تھا۔اس بیٹی کا کیا قصور تھا جو بیمار والدہ سے ملنے کے بعد اپنے شوہر اور بچوں کے پاس واپس جارہی تھی حالانکہ بیمار والدہ کے دل کو جدائی کی تڑپ محسوس ہوچکی تھی اس نے اپنی بیٹی کو جانے سے بہت روکا لیکن اس کی بیٹی نے سفارش کرکے ٹرین کی ٹکٹ لی اورموت کے سفر پر روانہ ہوگئی۔


ابتدائی طور پرکہا جارہا تھا کہ اس ٹرین حادثے میں تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں پھر ہلاک ہونے والی کی تعداد بڑھنے لگی اب تک ستر سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ یہ تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔یہ صرف ستر افراد کی ہلاکتیں نہیں بلکہ ستر ہزار افراد کی ہلاکتیں ہیں،مرنے والے ستر افراد اپنے پیچھے ایسے رشتے چھوڑ گئے ہیں جو زندہ رہ کر روز مرتے رہیں گے،یہ وہ رشتے ہیں جن کو ملنے والی چوٹ کی کوئی دوائی نہیں ہے بس دعا ہی ہوسکتی کہ اللہ انھیں صبرجمیل عطا فرمائے۔

پسماندگان غم میں نڈھال خاموش ہوچکے ہیں لیکن ٹرین حادثے میں مرنے والوں کی بے چین روحیں چیخ چیخ کراپنے قاتلوں کا پتہ پوچھ رہی ہیں۔ ان روحوں کا قاتل،اصل ذمہ دار کون ہے؟ یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا کیونکہ جب بھی کبھی ٹرین یا جہاز کا کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے تو انکوائری بٹھا دی جاتی ہے جسے اصل ذمہ دار نظر ہی نہیں آپاتے۔پاکستان میں ٹرین حادثات کی بنیادی وجہ ٹرینوں کا پرانا بوسیدہ سیفٹی نظام،سنگل ریلوے لائن،پرانی خراب ٹرینیں جن کی وجہ سے اکثر ٹرینوں کا شیڈول متاثر ہوتارہتا ہے۔

دنیا اب بلٹ ٹرین تک پہنچ چکی ہے لیکن ہم ابھی تک اپنے ریلوے نظام کو اپ ڈیٹ نہیں کرسکے۔ریلوے کی بہتری اور اسے جدید بنانے کی باتیں صرف میڈیا پرسننے کو ملتی رہتی ہیں لیکن اس خواب کی حقیقت ہے بھی یا نہیں اس کا کسی کو معلوم نہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم صرف وہی ایک ریلوے لائن استعمال کررہے ہیں جو انگریز یہاں بنا گئے تھے،عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب ہم اٹیم بم بنا سکتے ہیں،جب ہم سی پیک منصوبہ بنا سکتے ہیں،جب ہم موٹر وے بنا سکتے ہیں تو پھر ہم ریلوے کا ڈبل ٹریک کیوں نہیں بناسکتے؟ریلوے کے مسافروں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ اکثرٹکٹیں نہیں ملتیں،اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے پر اگر حقیقی معنوں میں توجہ دی جائے تو یہ ملک کا سب سے منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے کیونکہ ایسے سنگین حادثات کے باوجود لوگ ٹرین پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اگر لوگ ٹرینوں پر اس قدر اعتماد کرتے ہیں تو حکومت اور محکمہ ریلوے کو چاہیے کہ مسافروں کی زندگی کے تحفظ اور سفر کو آسان و محفوظ بنانے کے لئے ایسے ٹھوس اقدامات کرے کہ دوبارہ کبھی ایسے حادثات رونما نہ ہوسکیں۔  
یااللہ تبارک تعالیٰ سب کو کورونا کی وباء سے محفوظ رکھ ۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :