بھیڑ چال یا بکری چال

بدھ 26 اگست 2020

Malik Ali Usman Toor

ملک علی عثمان طور

اس دفعہ گاؤں کے دورے پہ ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو بھیڑیں چرارہا تھا. جن کی تعداد تقریباً 15 تھی وہ سب ایک ترتیب میں چررہی تھیں. ان کو چرانے والا دوسری جانب سکون سے بیٹھا تھا. وہ دن کے وقت کوئی کام کرتا ہے لیکن عصر کے بعد وہ اپنی بھیڑوں کو چراتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا یار تم بہت پرسکون بیٹھے ہو؟ مجھے یہ بتاؤ بکریوں اور بھیڑوں کے چرانے میں کیا فرق ہے۔

(جاری ہے)

وہ مسکرایا اور کہنے لگا جناب بہت سیدھے ہیں آپ_ آپ کو یہ تک نہیں پتہ بھیڑ اور بکری کو چرانے میں کیا فرق ہے؟ خیر آپ نے بھیڑ چال والا محاورہ تو سنا ہوگا؟ میں کہا ہاں_ تو اسی طرح بھیڑیں اگر ہزاروں کی تعداد میں بھی ہوں گی تو وہ جس طرف ایک چلے گی اس طرف سب چل پڑیں گی، چاہے آگے کھائی میں گرتی جائیں_ دوسری طرف بکریوں کا معاملہ اس کے الٹ ہے_ ہر کوئی اپنی مرضی سے جدھر کو مرضی نکل جائے _ مجھے ان 12،15 بھیڑوں کو چرانے میں بہت کم دکت محسوس ہوتی ہے، جوکہ محض 7 یا 8 مرلے جتنی جگہ میں ہی چر کے اپنا پیٹ بھر لیتی ہیں_ میں بھی پرسکون اور یہ بھی_ اور بکریوں کی بات کریں تو بہت سارے نبیوں نے بشمول خاتم انبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی چرائی ہیں_ کیوں کہ انہیں سنبھالنا بھیڑوں کی نسبت بہت مشکل ہوتا ہے_ میرے ذہن میں چند خیالات نے جنم لیا اور میں وہاں سے فوراً اپنے معاشرے کے حالات کی طرف آگیا_ ہمارا معاشرہ میں بھی ایک طرف بکری چال تو دوسری طرف بھیڑ چال ہے_ تعلیمی شعبے میں 1998تک میٹرک کے بعد طالبعلموں کا ایک سیلاب تھا جو کامرس کے شعبے میں ماہرِمعیشت بننے کے لیے پرعزم تھے جسے دیکھو آئی کام اس کے بعد بی کام اور پھر ڈگری کے بعد کوئی کام بھی نہیں_ نتیجتاً 2010 میں ہمارے ایک اصولِ تجارت کے ایک استاد یاسر صاحب نے بتایا کہ بینکنگ سیکٹر میں اگلے دس سال تک کوئی نوکری نہیں تو اپنی راہ کا تعین کر لو بیٹا جی_ یہی نہیں بلکہ میٹرک میں سائنس نہ رکھنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا_ تھوڑا آگے آتے ہیں اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی بات کریں تو صحافت کے شعبے میں بھی یہی حال تھا_ نتیجتاً2019میں سر کاشف صاحب نے بتایا کہ صحافت کا بھی حال برا ہے میڈیا مالکان نے خود ساختہ بحران پیدا کردیا ہے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں_ یہ تو بات ہو گئ بھیڑ چال کی_ اب بات کرتے ہیں بکری چال کی، موجود حالات اس کی صحیح عکاسی کرتے ہیں_ ہر کوئی تو اپنے آپ میں سقراط بنا بیٹھا ہے، بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کی بدولت جسے دیکھو ایک سے بڑھ کر ایک تجزیہ نگار بنا بیٹھا ہے_ نہ کوئی تحقیق، نہ مطالعہ، نہ معلومات اس کے باوجود بڑے سے بڑے مذہبی یا سماجی رہنماؤں پہ بے تنقید_ جو مواد سوشل میڈیا پر سامنے آجائے اسی کو بلا سوچے پھیلا دیا جاتا ہے _ اس معاملے میں کسی سے کسی کی نہیں بنتی_ لوگوں نے خود سے عجیب و غریب عقائد نظریات بنارکھے ہیں_ الغرض ہر بندے نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسیت بنا رکھی ہے_ ہمارے استاد محترم رضوان صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ "یہ دنیا اختلاف عمل اور اختلاف رائے کے اصول پر چل رہی ہے" _ درجہ بالا بحث سے ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اختلاف رائے کے مطابق بکری چال اور دوسری طرف اندھی تقلید کے مطابق بھیڑ چال کا حسین امتزاج ہے_ یہاں ایک بات واضح کرنا لازمی ہے سیاست کا ذکر بالکل نہیں کیا ادھر ایک عجیب سی دنیا کا ماحول بنا ہوا ہے_ حکمران جنہوں نے ہاتھا پائی کرنی تھی مہنگائی سے، بیروزگاری سے، vipپروٹوکول سے، افراطِ زر سے _ انہوں نے آپس میں ہاتھاپائی شروع کردی_ خیر ہمارے معاشرے کو ابھی بھی ایک مثالی اور مہذب معاشرے بننے کافی عرصہ درکار ہوگا_ اگرچہ ہمارا معاشرہ بھیڑ چال، بکری چال، اختلاف رائے، اختلاف عمل اور مختلف مذاہب سے بھرا پڑا ہے، لیکن بنیادی قدر برداشت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے_ اور برداشت کا اعلیٰ ترین معیار یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے، اس کو اہمیت دی جائے ناقابل عمل کی صورت میں برداشت کیا جائے تو ہم پہ لازم ہے کہ ہم بھی ایسے ہی کریں_ ورنہ حال بکری چال والا ہی ہوگا_ ہرکوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسیت کو ہی اپنی ہستی سمجھے گا_ نتیجتاً نہ بہتری آسکے گی، نہ مثالی معاشرہ بن سکے گا، نہ برداشت کا معیار پروان چڑھ سکے گا_ اور نہ ہی تبدیلی آسکے گی_

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :