" امریکہ سے آگے جہاں اور بھی ہیں"

ہفتہ 6 جون 2020

Malik Ali Usman Toor

ملک علی عثمان طور

پنجابی کی ایک مثال ہے "آپ روڑدی جاندی تے متی دیندی لوکاں" _ یعنی خود تو ڈوبتی جاتی ہے اور دوسرے لوگوں کو نصیحتیں کررہی ہے، اسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں خود برے کام کرنا اور لوگوں کو ان سے منع کرنا یہ گناہ ہے غلط ہے، وہ کوئی بھی ہوسکتا ہے، لیکن آج بات ہوگی امریکہ کے حالیہ حالات کے بارے میں_  25 مئی کی شام امریکہ کے ایک شہر ( Minneapolis) کے ایک  سٹور سے پولیس کو ایک فون کیا جاتا ہے کہ یہاں ایک بندے کو جعلی نوٹ دینے کی وجہ سے پکڑ لیا ہے لہذا آپ اس کو گرفتار کر لیں_ پولیس نے اس سیاہ فام جارج فلوریڈ نامی آدمی کو پکڑ لیا اور پکڑنے والے پولیس اہلکار نے سیاہ فام کو گھٹنوں میں دبا کر شدید زدوکوب کرنا شروع کر دیا_ وہ سیاہ فام چلاتا رہا کہ مجھے سانس کی بیماری ہے لہذا مجھے ایسے مت اذیت دو "میرا دم گھٹ رہا ہے مجھے سانس نہیں آرہا"، لیکن اس پولیس اہلکار نے اس کی ایک نہ سنی اور تقریباً 9 منٹ تک اسے ایسے ہی گھٹنوں میں دبائے رکھا، پہلے 3 منٹ تو نیچے سے آوازیں آتی رہیں لیکن اس کے بعد آوازیں آنا بند ہوگئیں، کیونکہ تب تک وہ سیاہ فام مرچکا تھا_ چند لوگوں نے اس کی ویڈیو بنا لی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی_ پھر کیا تھا کہ لوگوں کا ایک جمِ غفیر کیا کالا کیا گورا ناصرف اسی ریاست میں بلکہ پورے امریکہ میں اس سیاہ فام کی موت پر سراپا احتجاج بن گئے، یہی نہیں بلکہ پرتشدد واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا_ کیا یہ ایک حادثہ ہے؟ کہتے ہیں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا بلکہ وقت اس کی بڑی لمبی پرورش کرتا ہے"_ یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق سال کے کم وبیش 365 دنوں میں سے صرف 27 دن ایسے گزرے تھے جب کسی امریکی پولیس والے نے کسی عام شہری کو قتل نہ کیا ہو، باقی دنوں میں 1100 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا_ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ رہ جاتی امریکی سیاہ فام باشندوں کو بڑی سختی سے چیک کیا جاتا ہے، ان کی تلاشی لی جاتی ہے_ اور سفید فام اس سے بھی مستثنٰی ہیں_ یعنی ہمارا کتا  کتا اور تمہار کتا ٹومی؟ اس طرح کے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے_ سابقہ امریکی مئیر  جیکب فیری نے اس واقعے کے ردعمل میں کہا ہے کہ "امریکہ میں سیاہ فام برادری سے تعلق رکھنے کا مطلب ہے سزائے موت نہیں ہونا چاہیے" _ سابق صدر باراک اوبامہ نے کہا کہ "اس سیاہ فام کی موت کی ویڈیو دیکھ کر میں اندر اور باہر سے ٹوٹ گیا ہوں"_ ٹرمپ نے کہا کہ" ہم مشکل گھڑی میں خود کو سنبھال لیں گے لیکن اگر لوٹ مار شروع ہوگئ تو ہم مارنا شروع کر دیں گے"_  امریکی صدر کا یہ بیان حسبِ معمول غیر سنجیدہ اور شدت پسندی پر مبنی ہے_ کہتے ہیں جس رخ زمانہ پھرے اسی رخ پھر جاؤ، لیکن افسوس ٹرمپ ہمیشہ کی طرح ان حالات میں بھی غیر سنجیدگی سے کام لے رہے ہیں، بہرحال حالات ان کے قابو سے باہر ہوگئے وائٹ ہاؤس پر حملہ ہوگیا اس قدر پرتشدد واقعات ابھی تک چل رہے ہیں_ حتی کہ امریکی نیشنل گارڈز کے 5 ہزار اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑا، جنہوں نے آنسو گیس سے شیل اور مرچوں والی گولیاں چلائیں _ ان پرتشدد واقعات اور  جھڑپوں میں عوام نے ناصرف سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ پرائیویٹ کو بھی نہیں چھوڑا، الغرض امریکی ریاستیں میدان جنگ بنی رہیں_ بہت ساری جگہوں پر بڑے بڑے سائن بورڈز لگے ہوئے تھے جن پر لکھا ہوا تھا کہ "سیاہ فام لوگوں کے قتل کو روکو" بہت سارے شہروں میں لوگ الٹا لیٹ کر مرنے والے کے مخصوص انداز میں اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے تھے اور اس کے آخری جملے دہرا رہے تھے "میرا سانس رک رہا ہے" _جس وجہ سے 40 ریاستوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ، ان ریاستوں میں شکاگو، فلوریڈا، اور لاس انجلیوس شامل ہیں_ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی دفعہ ایک ہفتے کے لیے امریکہ میں کرفیو لگا ہے_ اور اب آہستہ آہستہ اٹھایا جارہا ہے_  امریکہ جو ہمیشہ سے ہر طرح کے میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے_ ہمیں یہاں سیکھنے کے لیے یہ سبق ملتا ہے کہ امریکہ کی کہی ہوئی ہر بات حرفِ آخر نہیں، اس کا ہر حکم بجالانے کے قابل نہیں ہوتا، اس کی ہرضد ماننے والی نہیں ہوتی وہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد ہر کسی کو گھٹنوں میں دبا کر مار دیتا ہے_ ہمیں اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ امریکہ سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :