اللہ کا ذِکر

پیر 9 اگست 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

اللہ  تعالٰی  نے انسان کو تمام اشرف  المخلوقات  پر فضیلت  بخشی ۔ خصوصی طور پر اُسے نعمتِ  کلام  سے نوازا ۔ اور اُسے زبان  عطا  فرمائی ۔ یہ  ایسی نعمت  ہے جس  کا استعمال  اچھے اور بُرے دونوں  کاموں  کے لیۓ ہوتا ہے۔ لٰہذا جس شخص  نے اس  نعمت  کا استعمال  اچھے کام  کے  لیۓ کیا تو اُسے دنیا میں  سعادت  اور جنت  میں  اونچے مقام  تک  پہنچا دیتی  ہے ۔

اور جس  نے اس  کا استعمال  اس  کے خلاف  کیا تو اُسے دُنیا و آخرت  میں  ہلاکت  کی  گھاٹی  میں  دھکیل  دیتی  ہے ۔ اور تلاوتِ  قرآنِ  مجید کے بعد سب  سے بہتر  عمل  جس  کے  لیۓ وقت  صَرف  کیا جاۓ وہ  ذکرِ الٰہی  ہے ۔
ذِکر کی فضیلت  کے سلسلے میں  بہت  سی  احادیث موجود  ہیں ۔ انہی  میں سے آپ صلی  اللہ  علیہ  وآلہ  وسلم  کا  یہ  بھی  فرمان  ہے :۔

(جاری ہے)


“ کیا میں تمھیں  ایک ایسا کام  نہ بتلا دُوں  جو  تمھارا سب  سے بہتر عمل  ہو ، تمھارے رب کے نزدیک سب  سے پاک و طیب ہو ، تمھارے درجات  کی بلندی  میں سب  سے اونچا مقام رکھتا ہو ، تمھارے  لیۓ سونا چاندی  خرچ کرنے  سے بہتر  ہو اور اُس  سے بھی  بہتر  ہو کہ  تم  اپنے دشمنوں  سے بھڑو تم  ان  کے سَر  قَلم کرو اور وہ تمھاری  گردنیں  ماریں “ ؟  صحابی  نے عرض  کیا : اے اللہ کے رسول  صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم  ! ضرور  بتلائیں ، آپ  صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم  نے فرمایا :۔

“ اللہ  کا  ذکر “ ۔
اور آپ  صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم  کا  یہ  بھی  فرمان  ہے :۔
“ جو شخص  اللہ کا ذِکر  کرتا  ہے اس  کی  مثال  اور اس  شخص  کی  مثال جو اللہ کا ذِکر نہیں  کرتا زندہ  اور مُردہ  کی  ہے “ ۔
نیز حدیثِ  قدسی  میں  ہے :۔
“ اللہ تعالٰی  فرماتا ہے : میں  اپنے  بندے کے گمان  کے مطابق  ہوں ، جب وہ  مجھے یاد  کرتا  ہے تو میں  اس  کے ساتھ  ہوتا ہوں ، اگر وہ  میرا ذِکر اپنے دل  میں  کرتا  ہے تو میں  بھی  اس  کا ذکر  اپنے دل  میں کرتا ہوں  اور اگر وہ  میرا ذکر جماعت  میں  کرتا ہے تو میں  بھی  اس  کا ذِکر  ایسی  جماعت  میں  کرتا ہوں  جو اس  کی  جماعت  سے بہتر  ہے اور اگر وہ  ایک  بالشت  میرے قریب بڑھتا  ہے تو میں  اس  کی  طرف  ایک  ہاتھ  بڑھتا ہوں “ ۔


نیز اللہ کے رسول  صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم  کا یہ  فرمان  ہے :۔
“ مفردون  سبقت  لے  گئے “، صحابہ  نے عرض  کی : اے اللہ کے رسول صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم مفردون  کون  سے لوگ  ہیں ؟ آپ  صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم  نے فرمایا :۔ “ اللہ تعالٰی  کا کثرت  سے  ذکر کرنے  والے مرد اور عورتیں “ ۔
نیز  آپ  صلی  اللہ علیہ  وآلہ  وسلم  نے اپنے ایک  صحابی  کو  یہ  وصیت فرمائی  :۔


“ تمھاری  زبان  کو ذکرِ الٰہی  سے برابر تر رہنا چاہیے “ ۔
جس  طرح  قرآن  مجید  کی  تلاوت  کے اجر  میں  اضافہ  ہوتا  ہے ۔ اسی  طرح  ہر  نیک عمل  کے اجر میں  بڑھوتری  ہوتی  ہے ، وہ  اس  طرح : دل  میں  ایمان  و اخلاص ، اللہ کی  محبت  اور اس  کے متعلقات  کی ( زیادتی ) کے اعتبار  سے ۔ اس  اعتبار  سے  کہ  اس  کا  دل  ذکرِ الٰہی  میں  کس  قدر لگ  رہا  ہے ، اور کتنا غور و فکر کر رہا ہے ۔

صرف زبان  ہی  سے کلماتِ ذکر  کی  ادائیگی  نہیں  ہے ۔ چنانچہ  اگر  یہ  چیزیں  مکمل   ہیں  تو اللہ تعالٰی  تمام  گناہوں  کو معاف  کر دیتا  ہے  اور پورے اجر سے نوازتا ہے ۔ اس  کے بَرخلاف  مغفرت  و اجر  میں  کمی  و نقصان  بھی  اسی  اعتبار سے ہے ۔
شیخ  الاسلام  امام  ابن   تیمیہ  نے فرمایا  کہ  دل  کے لیۓ  ذکرِ الٰہی  ویسا  ہے جیسے مچھلی  کے  لیۓ  پانی  تو  بتائیں  کہ مچھلی  اگر  پانی  سے  دُور ہو جاۓ تو اس  کی  کیا کیفیت ہو  گی !
ذکر ، اللہ کی  محبت ، قرب  اور اس   کا خوف  پیدا کرتا  ہے ۔

ذہن  میں  اللہ کا خوف  اور اس   کی  نگرانی  کا  تصور بٹھاتا  ہے ۔ رجوع  الی  اللہ اور انابت  کا جذبہ  پیدا کرتا  ہے اور اس   کی  اطاعت  پر مدد  کرتا ہے ۔ ذکر دل  سے غم  و فکر کو دور کرتا ہے ، خوشی  سے بھَر دیتا ہے مزید دل  کو زندگی  ، قوت اور صفائی  فراہم  کرتا ہے ۔ دل  میں  ایک  ایسی  محتاجی  ہے جسے  ذکرِ الٰہی  ہی  پورا کرتا  ہے اور ایک  ایسی  سختی  ہے جسے ذکرِ الٰہی  کے علاوہ کوئی  اور چیز  نرم  و  ملائم  نہیں  کر  سکتی  ۔


ذِکر دل  کی  بیماریوں  کا علاج ،  اس  کی  دوا اور روزی  ہے اور اس  کے لیۓ ایسی  لذت  ہے کہ اس  کا مقابلہ  کوئی  اور لذت  نہیں  کر سکتی  ۔ اور غفلت  دل  کی  بیماری  ہے ۔ ذکرِ الٰہی  میں  کمی  نفاق  کی  دلیل  ہے اور اس  کی  کثرت  قوتِ  ایمانی  اور اللہ تعالٰی  کے ساتھ  سچی  محبت  کی  دلیل  ہے کیونکہ  جو جس  چیز  سے محبت  کرتا ہے اسے کثرت  سے یاد کرتا ہے ۔

اگر  بندہ  راحت  و خوشی  کے ایام  میں  اللہ تعالٰی  کو یاد رکھتا ہے تو سختی  و پریشانی  کے وقت  بھی  اسے اللہ تعالٰی  یاد آتا ہے ۔ خاص  کر موت  اور سکرات  موت  کے وقت ۔ ذکر ، عذابِ  الٰہی  سے  نجات ، سکینت  اور اطمینان  کے نزول ، رحمتوں  کی  برسات اور فرشتوں  کے استغفار  کے حصول  کا  سبب  ہے ۔
ذکرِ الٰہی  میں  مشغول  ہو کر زبان  ، لغویات ، غیبت ، چغلی ، جھوٹ  وغیرہ  ایسی  حرام و مکروہ  باتوں  سے محفوظ رہتی  ہے ۔

ذکرِ الٰہی  سب  سے آسان، سب سے افضل  اور سب  سے عمدہ عبادت  ہے اور  یہ  جنت  کی کھیتی  ہے ۔  ذکرِ الٰہی  کا اہتمام کرنے والے کے چہرے پر رعب ، رونق ، تروتازگی  ہوتی  ہے ۔ نیز  ذکرِ الٰہی  دُنیا ، قبر اور آخرت  میں  نُور کا سبب ہے۔  ذکر کرنے والے  کے  لیۓ  ذکر ، اللہ کی  رحمت  اور فرشتوں  کی  دُعاؤں  کا سبب  ہے ۔ اور اللہ تعالٰی  فرشتوں  کے سامنے ذکر کرنے والوں  پر فخر کرتا ہے ۔


سب  سے افضل  عمل  والے اللہ تعالٰی  کا سب سے زیادہ  ذکر کرنے والے ہیں ۔ چنانچہ  سب  سے افضل  روزے دار  وہ  ہے جو روزے  کی  حالت  میں  کثرت  سے  ذکرِ الٰہی  کرنے والا ہو ۔ ذکرِ الٰہی  ہر  مشکل  کو آسان  کرتا اور  سختی  کو نرمی  میں  بدل  دیتا  ہے ۔ مشقت  کی  جگہ  راحت  کو لاتا ہے۔ روزی  کا سبب  اور  جسم  کو قوت  عطا کرتا  ہے ۔ ذکر  شیطان  کو بھگاتا ، اس  کا  قلع  قمع  کرتا ، اسے  ذلیل  و  خوار کرتا ہے اور اللہ  کی رضامندی  کا سبب  ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :