جنگِ یرموک

جمعہ 5 نومبر 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

حضرت خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے ایک تجربہ کار سپہ سالار کی حیثیت سے تمام حالات کا معائنہ کیا ۔ ایک رات اُن کو محسوس ہوا کہ صبح رومی لشکر متفقہ طور پر حملہ آور ہو گا ۔ انھوں نے رات ہی کے وقت تمام لشکر اسلام کو جس کی تعداد چالیس ہزار سے چھیالیس ہزار تک بیان کی گئی ہے ۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کر کے ہر ایک دستہ پر ایک ایک تجربہ کار بہادر شخص کو افسر مقرر کیا اور چیدہ چیدہ بہادروں کا ایک مختصر دستہ اپنی رفاقت کے لیۓ مخصوص کر کے نہایت عمدگی کے ساتھ ہر ایک افسر کو اُس کے فرائض اور مناسب ہدایات سمجھا دیں ۔

رومی لشکر کی جانب سے اول چالیس ہزار سواروں کے ایک لشکر نے حملہ کیا ۔ حضرت خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے اپنے مٹھی بھر رفیقوں کے ساتھ آگے بڑھ کر اس لشکر کو بھگا دیا ۔

(جاری ہے)

اس کے بعد جرجہ بن زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ رومی سردار آگے بڑھ کر آیا ۔ اور خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو کچھ باتیں کرنے کے لیۓ طلب کیا۔ خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اُس کے پاس گئے ۔

اُس نے خالد بن ولید رضی الَٰلہ تعالٰی عنہ سے اسلام کے متعلق کچھ سوالات کیۓ ۔ حضرت خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے اُس کو نہایت خوبی کے ساتھ اسلام کی حقیقت سمجھائی ۔ وہ اُسی وقت مسلمان ہو کر تنہا خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ اسلامی لشکر میں چلے آۓ ۔ اور پھر مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو کر رومی لشکر پر حملہ آور ہوۓ ۔

اسی لڑائی میں جرجہ بن زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہید ہوۓ ۔
دونوں طرف سے سخت حملہ شروع ہوا ۔ اسلامی سرداروں کی حیرت انگیز بہادری اور مسلمانوں کی کمی کے باوجود کسی لشکری نے دل میں ہمت ہارنے اور بددل ہونے کے خیال تک کو بھی نہیں آنے دیا ۔ جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ عورتوں نے بھی جو اسلامی لشکر کے ساتھ تھیں ۔

لڑنے اور کفار کے قتل کرنے میں حصہ لیا ۔ ابی سفیان رجز پڑھ پڑھ کر دلوں میں جوش اور لڑائی کی اُمنگ  پیدا کر رہے تھے ۔ حضرت عکرمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے بلند آواز سے کہا کہ کون ہے جو میرے ہاتھ پر موت کے لیۓ بیعت کرے ۔ اُسی وقت حضرت ضرار رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بن ازور اور دوسرے چار سو آدمیوں نے بیعت کی ۔ کہ ہم یا تو شہید ہو جائیں گے یا فتح مند ہو کر میدان سے واپس آئیں گے ۔

اس کے بعد یہ جماعت رومی لشکر میں بھوکے شیروں کی طرح گھس گئی ۔ حضرت مقداد بلند آواز سے قرآنی آیات کی تلاوت فرما کر غازیان اسلام کے دلوں میں شوقِ شہادت پیدا کر رہے تھے ۔ حضرت خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، ابو عبیدہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بن جراح ، شرجیل بن حسنہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، یزید بن ابی سفیان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، عکرمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بن ابی جہل ، قعقاع رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بن عمرو ، ابو سفیان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، ابودردا رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، عمرو بن عاص رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، حارث رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، ضرار رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، جرجہ بن زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ وغیرہ بہادرانِ اسلام نے وہ کارہاۓ نمایاں کیۓ کہ چشم فلک نے آج تک نہ دیکھے تھے ۔

صبح سے شام تک شمشیرو خنجر اور تیروسنان کا استعمال بڑی تیزی اور سرگرمی سے جاری رہا ۔ ظہر و عصر کی نمازیں غازیان اسلام نے محض اشاروں سے میدانِ جنگ میں لڑتے ہوۓ پڑھیں ۔ دن ختم ہو گیا مگر لڑائی ختم نہ ہوئی ۔
بالآخر رومی دن بھر کی صعوبت کشی سے افسردہ ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ پر جم نہ سکے ۔ پیچھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے دامنِ کوہ میں پہنچے لیکن مسلمان ان کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے اور دھکیلتے ہوۓ گئے ۔

جب پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کی جگہ نہ ملی تو ادھر اُدھر کو پُھوٹ پُھوٹ کر اُن کا سیلاب نکلا ۔ مسلمانوں نے اُنکا پیچھا نہ چھوڑا ۔ بہت سے پانی میں ڈوب کر بہت سے خندق میں گر کر ہلاک ہوۓ ۔ ایک لاکھ تیس ہزار رومی لقمہ اجل ہوۓ ۔ باقی اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے ۔ ان مفرورین میں سوار زیادہ تھے ۔ پیدل قریباً سب مارے گئے۔ لڑائی تمام دن اور تمام رات جاری رہ کر اگلے دن صبح کے وقت مسلمانوں کی فتح کی شکل میں ختم ہوئی ۔

اور رومی سپاہیوں سے میدان بالکل خالی نظر آیا۔ رومیوں کا سپہ سالار اعظم تذارق برادر ہرقل بھی مارا گیا ۔ اور بھی کئی سردار مارے گئے ۔
 مسلمانوں کے تین ہزار بہادر شہید ہوۓ ۔ ان تین ہزار میں جرجہ بن زید نو مسلم ، عکرمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بن ابی جہل ، عمرو بن عکرمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، سلمہ بن ہشام رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، عمرو بن سعید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، ابان بن سعید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، ہشام بن العاصی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، ہبار بن سفیان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، طفیل بن عمرو رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ وغیرہ شہداء خاص طور پر قابلِ تذکرہ ہیں ۔

جنگ یرموک ربیع الاول یا ربیع الثانی سنہ ۱۳ھ میں بیان کی جاتی ہے ۔ مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ۔ جنگِ یرموک یقیناً جمادی الثانی کی آخری تاریخوں میں ہوئی ہے ۔ رومی لشکر کے یرموک میں آنے سے پہلے مسلمانوں نے بصریٰ وغیرہ کے مقامات فتح کیۓ تھے۔ وفات صدیقی تک فتح یرموک کی خبر مدینہ میں نہیں پہنچی تھی ۔ یہ غیر ممکن تھا کہ فتح یرموک کی خبر دو ڈھائی مہینے تک مدینہ میں نہ پہنچتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :