محمد بن قاسم ۔ قسط نمبر 1

منگل 26 اکتوبر 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

جس زمانے میں مسلمانوں نے ملکِ عرب سے باہر فاتحانہ قدم نکالا تو ملکِ سندھ میں بودھ مذہب کے راجہ حکمران تھے ۔ ایرانی شہنشاہی مسلمانوں کے ہاتھ سے پارہ پارہ ہوئی تو ایرانی سردار کچھ تو فرار ہو کر سندھ ، ترکستان اور چین کی طرف بھاگ گئے اور مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہوۓ ۔
کچھ مسلمان ہو کر عزت و آرام کے ساتھ اپنے ملک میں زندگی بسر کرنے لگے۔

اتفاق سے بنو ہاشم اور بنو اُمیہ میں جب قومی و خاندانی رقابتوں نے ترقی کی تو ان ایرانیوں کو بھی قومی رقابت یاد آ گئی اور انھوں نے عبدالّٰلہ بن سبا اور دوسرے منافقوں کی سازشوں میں بڑے ذوق و شوق سے حصہ لینا شروع کیا ۔
ان سازشوں اور مسلمانوں کی خانہ جنگیوں سے اُن ایرانیوں کے منصوبوں میں جو سندھ و کابل و چین و تبت وغیرہ میں جِلا وطن ہو کر مقیم اور مخالف اسلام کوششوں میں مصروف تھے ازسرِ نو جان پڑ گئی ۔

(جاری ہے)

اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو ایرانیوں کی بدولت کوفہ بصرہ میں بھی اور ایران و خراسان کے علاقوں میں بھی بار بار مشکلات کا سامنا ہوا۔
سندھ کا ملک چونکہ بصرہ و کوفہ یعنی عراق سے نسبتاً قریب تھا اور ایرانی حکومت کی سرحد اس سے ملتی تھی ۔ لہٰذا زیادہ تر شرارت پیشہ ایرانیوں کا امن ملکِ سندھ ہی بنا ہوا تھا ۔ اسلامی فتوحات کے سیلاب کو دیکھ دیکھ کر سندھ کا راجہ خود بھی ایرانیوں کی بربادی سے متاسف اور اس امر کا کوشاں تھا کہ کسی طرح ایرانی اپنی سلطنت پھر قائم کر سکیں ، چنانچہ ایران کے آخری بادشاہ نے معرکۂ نہاوند کے بعد کئی مرتبہ فوجیں جمع کر کے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تو ان مقابلوں اور معرکوں میں سندھ کی امدادی فوج شاہِ ایران کے ساتھ ضروری ہوتی تھی ۔

ایران کی سلطنت جب برباد ہوئی تو سندھ کے راجہ نے اپنے سرحدی ایرانی صوبوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور مغلوب و مفتوح ایرانیوں نے کرمان و بلوچستان وغیرہ کے صوبوں کو بخوشی سندھ کے راجہ کو سپرد کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں نہ جا سکیں اور اس کے معاوضہ میں سندھ کے راجہ کی حمایت اُن کو حاصل رہے ۔
یہ تمام باتیں محرک اس امر کی تھیں کہ مسلمان سندھ پر حملہ کر کے سندھ کے راجہ کو درست کریں ۔

لیکن حضرت عثمان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ابھی ایران و خراسان پر مکمل قبضہ نہ ہونے پایا تھا کہ اندرونی فسادات شروع ہو گئے اور سندھ کی طرف کوئی توجہ نہ ہو سکی ۔ حضرت امیر معاویہ نے اندرونی خرخشوں سے نجات حاصل کر کے بیرونی ممالک کی طرف توجہ حاصل کی اور ان کے زمانے میں سندھ کے راجہ سے وہ صوبے جو ایرانی سلطنت کا جزو تھے واپس لینے کی کوشش کی گئی ۔

اس سلسلہ میں معمولی چھیڑ چھاڑ سندھی فوجوں سے ہوئی لیکن اُن کے بعد یزید کی حکومت میں پھر وہی اندرونی فسادات واپس آ گئے اور مسلمان بیرونی علاقوں کی طرف متوجہ نہ سکے ۔
عبدالملک کے زمانے میں پھر مسلمانوں کو بیرونی ممالک کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہ ملا ۔ اور حجاج نے جو مشرقی ممالک کا وائسراۓ تھا ۔ سندھ کے مقابلے میں افغانستان و بدخشان کے حاکم رتبیل کی سرکوبی کو اس لیۓ مقدم سمجھا کہ وہ خراسان کے اسلامی صوبہ کے لیۓ بہت زیادہ خطرناک ہو سکتا تھا۔

چنانچہ حجاج کی زیادہ تر توجہ رتبیل اور اُس کی وجہ سے بخارا وغیرہ کی طرف مبذول رہی ۔ حجاج کے گورنر قیتبہ نے ملکِ چین تک کے سرکشوں کو سیدھا کرنے میں کارہاۓ نمایاں دکھلاۓ ۔ اس کے بعد سندھ کا ملک ہی ایک ایسا ملک تھا کہ مسلمان سندھیوں سے اپنے حقوق واپس لینے اور سندھ کے راجہ کو آئیندہ کے لیۓ درست رکھنے کی غرض سے اپنی طاقت و سطوت کا نمونہ دکھاتے لیکن ابھی مسلمان اس ضروری کام کو اپنی طرف سے شروع نہ کرنے پاۓ تھے کہ خود سندھ کے راجہ نے مسلمانوں کو اپنے ملک پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے دی ۔


تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کچھ مسلمان سوداگر جزیرہ سراندیپ میں بہ حالتِ سفر فوت ہو گئے تھے ۔ اُن کے یتیم بچے اوربیوہ عورتیں جو اس جزیرہ میں رہ گئیں اُن کو سراندیپ کے راجہ نے حجاج بن یوسف ثقفی اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کی عنایت و مہربانی اپنی طرف مبذول کرنے کے لیۓ بہترین ذریعہ سمجھا ۔ سراندیپ کا راجہ مسلمانوں کی فتوحات کا حال سُن سُن کر پہلے سے مرعوب اور اپنی نیاز مندی کے اظہار کی غرض سے کسی ذریعہ اور حیلہ کا متلاشی تھا ۔

چنانچہ اُس نے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کو بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ اپنے معتمدوں کے ساتھ اپنے خاص جہازوں میں بٹھا کر حجاج کے پاس روانہ کیا ۔ بہت سے قیمتی تحفے اور ہدیے حجاج اور خلیفہ ولید کے لیۓ بھیجے اور ان  یتیموں اور بیواؤں سے امید رکھی کہ یہ ضرور میری تعریف حجاج سے کریں گے ۔ یہ کشتیاں سراندیپ سے روانہ ہو کر ساحل کے قریب قریب سفر کرتی ہوئی خلیج فارس کی طرف روانہ ہوئیں کہ وہاں سے خشکی پر اُتر کر یہ لوگ معہ تحفہ و ہدایا حجاج کی خدمت میں کُوفہ پہنچیں گے ۔

راستے میں بادِ مخالف طوفان نے ان کشتیوں کو سندھ کی بندرگاہ دیبل میں لا ڈالا ۔ یہاں سندھ کے راجہ مسمی داہر کے سپاہیوں نے ان کشتیوں کو لُوٹ لیا اور سواریوں کو قید کر لیا ۔ یہ حال جب حجاج کو معلوم ہوا تو اُس نے سندھ کے راجہ کو لکھا کہ وہ کشتیاں ہمارے پاس آ رہی تھیں ، تم لٹیروں کو قرار واقعی سزا دو اور کشتیوں کے آدمیوں کو معہ سامان مسروقہ ہمارے پاس بھیج دو ۔

یہاں سے راجہ نے حجاج کو نہایت مغرورانہ اور نا معقول جواب لکھا ۔
حجاج نے اول عبدالّٰلہ اسلمی کو چھ ہزار فوج کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا۔ عبدالّٰلہ سندھ میں پہنچ کر راجہ داہر کی فوج کا مقابلہ کرتا ہوا مارا گیا اور یہ مہم ناکام رہی ۔ دوسری مرتبہ حجاج نے بدیل نامی سردار کو مامور کیا کہ وہ بھی چھ ہزار فوج لے کر دیبل تک پہنچ گیا مگر حبیب راجہ کے مقابلہ میں لڑتا ہوا گھوڑے سے گر کر شہید ہوا ۔


اس خبر کو سُن کر حجاج کو اور بھی زیادہ ملال ہوا ۔ تیسری مرتبہ اس نے محمد بن قاسم کو جو اُس کا داماد بھی تھا اور صرف سترہ سال کی عمر کا نوجوان تھا ۔ چھ ہزار شامی فوج کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا ۔ محمد بن قاسم کے ساتھ اس مرتبہ شامی سپاہی اس لیۓ بھیجے گئے کہ حجاج کو اس بات کا شبہ تھا کہ عراقی و ایرانی سپاہی سندھیوں سے سازباز رکھتے ہیں ۔

محمد بن قاسم نے اول صوبہ مکران کو جس پر سندھیوں نے قبضہ کر رکھا تھا فتح کر کے سندھیوں کو بھگایا ۔ دیبل پر آیا اُس کو فتح کیا ۔ نیرون اور برہمن آباد کی طرف بڑھا ۔ راجہ داہر کے پاس نہ صرف ایرانی لوگ ہی پناہ گزین تھے بلکہ بہت سے عرب لوگ بھی جو خلیفہ وقت یا عمالِ خلافت سے باغی ہو ہو کر بھاگے تھے ۔ سندھ میں راجہ داہر کے پاس پناہ گزین تھے ۔ اس لیۓ بھی سندھ پر حملہ کرنا ناگزیر تھا ۔ راجہ داہر نے مقابلہ کیا اور مارا گیا ۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے یکے بعد دیگرے سندھ کے شہروں کو فتح کرنا شروع کیا ۔ حتٰی کہ تمام ملک سندھ اور ملتان اُس کے ہاتھ پر مفتوح ہوا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :